جنگِ انقرہ ،جب اسلامی دنیا کے دو عظیم جنگجو آمنے سامنے ہوئے۔
قسطنطنیہ کا محاصرہ:۔
یونان کی فتح کے بعد بایزید پھر ادر نہ لوٹ آیا اور اب اس نے قسطنطنیہ پر فوراً قبضہ کرنے کا تہیہ کر لیا، اس سے قبل بھی وہ قسطنطنیہ کا محاصرہ کر چکا تھا اور شہنشاہ کو اپنا پایہ تخت محفوظ رکھنے کے لیے بہت سخت شرائط پر دس سال کے لیے صلح کر لینی پڑی تھی لیکن اس مدت کے ختم ہونے سے پہلے ہی یونان کی فتح سے فارغ ہو کر بایزید پھر قسطنطنیہ کی طرف متوجہ ہوا اور اس نے ایک خاص ایلچی کے ذریعہ سے شہنشاہ کے پاس یہ پیغام بھیجا کہ وہ تاج و تخت سے دست بردار ہو جائے ورنہ شہر بہ زور شمشیر فتح کر لیا جائے گا اور اس وقت وہاں کے باشندے رحم و کرم کے مستحق نہ سمجھے جائیں گے ، اس نے یہ بھی کہلایا کہ قسطنطنیہ کے معاوضہ میں شہنشاہ اپنے لیے کوئی دوسری حکومت پسند کرلے جو اسے دے دی جائے گی ، قسطنطنیہ کے باشندے بایزید کی قوت سے واقف ہونے کی وجہ سے چاہتے تھے کہ جس طرح بھی ممکن ہو جنگ کی نوبت نہ آنے دیں، لیکن جان کو امید تھی کہ عیسائی حکومتیں قسطنطنیہ کی مخالفت میں اس کی مدد سے دریغ نہ کریں گی ، اس لیے اس نے ایلچی کو یہ جواب دے کر رخصت کر دیا:
" اپنے آقا سے کہہ دو کہ باوجود اس کے کہ ہم ضعیف و ناتواں ہیں، ہم خدا کے سوا کسی دوسری طاقت سے نہیں ڈرتے ، وہی کمزور کی حفاظت کرتا ہے اور طاقتور کا غرور توڑتا ہے، سلطان کو اختیار ہے، جو چاہے کرے"۔
اس جواب کے بعد سلطان نے قسطنطنیہ کامحاصر کر لیا، اس محاصرہ کے دورا میں مارشل بوسلیکا شہنشاہ کی مدد کے لیے فرانس سے آیا تھا۔
حالات کا انقلاب:۔
لیکن عین اس وقت جب بایزید قسطنطنیہ پر حملہ کی تیاریاں کر رہا تھا، اس کے ایشیائی مقبوضات میں نہایت انقلاب انگیز حالات رونما ہو رہے تھے، جن سے مجبور ہو کر اسے محاصرہ اٹھا لینا پڑا ، اب تک بارہ سال کی مدت حکومت میں جو مسلسل جنگوں پر مشتمل تھی، بایزید کو ہمیشہ کامیابی ہوتی رہی، اس نے ایشیائے کوچک کا ایک بڑے حصہ مقدونیا۔ شمالی بلغار یا اور تھسلی کواپنی سلطنت میں شامل کر لیا تھا اور سلطنت بازنطینی سرویا، ولا چیا، بوسنیا اور یونان کے بیش تر حصہ کو دولت عثمانیہ کا باج گزار بنالیا تھا، نا ئیکو پولس کے میدان میں اس نے یورپ کی متحدہ اور بہترین فوجوں کو نہایت شرمناک شکست دے کر صلیبی اتحاد کی قوت کو پاش پاش کر ڈالا تھا، اس وقت تک کسی جنگ میں اسے ناکامی نہیں ہوئی تھی، لیکن آئندہ دو سالوں میں جو اس کی حکومت کے آخری سال تھے، اسے اتنی زبردست شکست اُٹھانی پڑی کہ اس کی تمام فتوحات پر پانی پھر گیا اور کچھ دنوں کے لیے سلطنت عثمانیہ کی عظمت خاک میں مل گئی ، خود بایزید کا خاتمہ بھی قید کی حالت اور بے کسی کے عالم میں ہوا، اس تباہی اور بربادی کا سبب وہ آویزش ہوئی جو بایزید اور تیمور کے درمیان پیدا ہوگئی تھی ۔
تیمور:۔
تیمور کی سلطنت دیوار چین سے لے کر ایشیائے کو چک کی سرحد تک اور بحر ارل سے دریائے گنگا اور خلیج فارس تک پھیلی ہوئی تھی ، اس کی زندگی کے ابتدائی سال اپنے ہمسایہ تا تاری امرا سے جنگ کرنے میں گزرے، پینتیس سال کی عمر میں اس نے سب کو زیر کر کے سمرقند کو اپنا پایہ تخت بنایا اور اس کے بعد فتوحات کا وہ سلسلہ شروع کیا جس کی وسعت کے سامنے سکندر، سیزر، اٹیلا ، چنگیز خاں، شارلیمین اور نپولین کی سلطنتیں حقیر معلوم ہونے لگیں ، اس نے پینتیس سال سے کم مدت میں ستائیں مملکتیں فتح کر لی تھیں اور نوشاہی خاندانوں کو فنا کر دیا تھا، اس کی یہ حیرت انگیز جہاں گیری صرف ذاتی شجاعت اور اعلیٰ فوجی قابلیت کا نتیجہ نہ تھی، بلکہ اس کے تدبر اور ملکہ حکمرانی کو بھی اس میں بہت کچھ دخل تھا، اس کا مجموعہ قوانین جسے اس نے فوج ، عدالت اور مالیہ کے انتظام کے لیے مرتب کرایا تھا، اس کے تدبر اور صحیح غور وفکر کا ثبوت پیش کرتا ہے کہ اس کے جاسوس مختلف بھیسوں میں خصوصاً زائرین اور درویشوں کے لباس میں ہر طرف گھومتے رہتے تھے اور ان کی مکمل رپورٹیں احتیاط کے ساتھ دفتر میں درج کی جاتی تھیں، اس طرح تیمور کو اپنے دشمنوں کی قوت اور کمزوری کی صحیح اطلاع بہم پہنچتی رہتی تھی ، اسے اپنے سپاہیوں پر اس قدر اقتدار حاصل تھا کہ وہ اس کے حکم پر نہ صرف بڑی سے بڑی سختی برداشت کرنے اور اپنی جانیں شمار کرنے پر آمادہ ہو جاتے تھے بلکہ عین فتح کے موقع پر اگر وہ حکم دیتا تو لوٹ مارسے بھی ہاتھ کھنچ لیتے اور مال غنیمت سے دست بردار ہو جانے میں مطلق پس و پیش نہ کرتے ، اپنے ماتحتوں کے ساتھ اس کا سلوک شریفانہ اور فیاضانہ تھا لیکن جو لوگ اس کی مخالفت کرتے تو انہیں سخت سزائیں دیتا، جیسا کہ کریسی نے لکھا ہےکہ:۔
"تیمور نے دہشت انگیزی کو بھی فتح کا ایک خاص ذریعہ بنا رکھا تھا اور جو سزائیں وہ پوری پوری آبادیوں کو دیتا ان سے اکثر یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی فوری اشتعال کا نتیجہ نہ تھیں، بلکہ پہلے سے سمجھ بوجھ کر طے کر لی گئی
ہوتیں۔"
جنگ نائیکوپولس کے بعد بایزید کے بعض فوجی افسروں نے ایشیائے کو چک کے مشرق میں فتوحات کا سلسلہ شروع کیا تھا، جس کی وجہ سے سلطنت عثمانیہ کی سرحد جار جیا تک پہنچ گئی تھی ، اور تیمور کی حکومت اس سے پہلے ہی جار جیا اور بحر کا سپین کے دوسرے مغربی ممالک میں قائم ہو چکی تھی ، دونوں سلطنتوں کے ہم سرحد ہو جانے کی وجہ سے ان کے درمیان جلد یا بدیر تصادم کا واقعہ ہوتا ناگزیر تھا، تیمور کی سلطنت کے بعد بایزید کی سلطنت اس وقت دنیا کی سب سے زیادہ طاقتور سلطنت تھی، بایزیدا اپنی سابق فتوحات کے نشہ میں اتنا سرشار تھا کہ اس نے تیمور کی قوت کا صحیح اندازہ نہ کیا اور ایک ایسے فاتح کو برا ھیختہ کر دیا جس کے نام کی دہشت سے بڑے بڑے بادشاہوں کے تخت متزلزل ہو جاتے تھے ، سرحدی جھگڑوں کے علاوہ آویزش کے اور بھی اسباب تھے، مثلاً ایک دوسرے کے باج گزار رئیسوں کو حملہ کی دھمکی دینا اور ایک دوسرے کے باغیوں کو پناہ دینا، باغیوں سے مراد وہ امرا تھے جن کی ریاستوں پر بایزید نے قبضہ کر لیا تھا اور وہ بھاگ کر تیمور کے پاس پناہ گزیں ہوئے تھے، اسی طرح وہ امرا بھی باغی سمجھے جاتے تھے جن کی ریاستیں تیمور نے فتح کر لی تھیں اور جنہیں بایزید نے اپنے دربار میں پناہ دی تھی، یہ لوگ اپنی ریاستوں کو دوبارہ حاصل کرنے کی غرض سے تیمور اور بایزید کو ایک دوسرے کے خلاف ابھارتے رہتے تھے، اسی سلسلہ میں دونوں کے درمیان نہایت تلخ خط و کتابت شروع ہوئی اور بالآ خرنوبت جنگ تک پہنچ گئی۔
سیواس:۔
چناچہ803ھ (1400ء) میں تیمور نے آرمینیا کی طرف سے عثمانی سرحد میں داخل ہو کر سیو اس کا محاصرہ کر لیا جو چند سال پہلے بایزید کے قبضہ میں آیا تھا، اس شہر کی دیواریں نہایت مضبوط تھیں اور ترکی دستہ نے بایزید کے سب سے بڑے لڑکے ارطغرل کی سرکردگی میں اس کی محافظت بھی ایسی جاں بازی کے ساتھ کی کہ تیمور کی سات آٹھ لاکھ فوج شروع میں کامیاب نہ ہو سکی لیکن آخر میں تیمور نے ایک ایسی تدبیر اختیار کی جس کا جواب محصورین کے پاس نہ تھا، اس نے چھ ہزار مزدور لگا کر دیواروں کی بنیاد میں کھدوانا شروع کر دیں اور اس درمیان میں شہتیروں کی تھونی لگا کر دیواروں کو گرنے سے روکے رکھا، جب کھدائی کا کام پورا ہو گیا اور بنیادوں کے اندر بڑی بڑی سرنگیں تیار ہوگئیں تو شہتیروں میں آگ لگوادی اور تمام دیوار میں دیکھتے دیکھتے ان ہی سرنگوں میں بیٹھ گئیں، حملہ آوروں کے لیے اب کوئی روک نہ تھی اور شہرپر فو راً قبضہ ہو گیا، تیور نے سیواس کے اس محافظ دستہ سے دل کھول کر انتظام لیا، ان میں سے چار ہزار آرمینوں کو اس نے زندہ دفن کر دیا اور ارطغرل اور بقیہ ترک سپاہیوں کو قتل کر دیا۔
بایزید اس وقت قسطنطنیہ کا محاصرہ کیے ہوئے تھا ، سیواس کے مفتوح ہونے اور ارطغرل کے قتل کی خبر سن کر وہ فوراً وہاں سے روانہ ہوا اور تیمور کے مقابلہ کے لیے ایشیائے کو چک پہنچا لیکن تیمور اس درمیان میں شام اور مصر کی طرف روانہ ہو چکا تھا، دو سال کے بعد وہ پھر لوٹا اور سیواس پہنچنے کے بعد بایزید اور اس کے درمیان خط و کتابت دوبارہ شروع ہوئی جو پہلے سے بھی زیادہ تند اور تیز تھی، نتیجہ یہ ہوا کہ فریقین نے ایک فیصلہ کن جنگ کا عزم کر لیا۔
جنگ انگوره:۔
بایزید ایک لاکھ 20 ہزار فوج کے ساتھ تیمور کے مقابلہ کے لیے سیواس کی طرف بڑھا لیکن تیمور کی کثیر فوج کے لیے جس کی تعداد 2 لاکھ کے درمیان بتائی جاتی ہے ، سیواس کا میدان تنگ تھا ، اس لیے وہ بایزید کے پہنچنے سے پہلے ہی انگورہ کی طرف روانہ ہو گیا اور وہاں پہنچ کر فوراً انگورہ کا محاصرہ کر لیا، اسے یقین تھا کہ بایزید انگورہ کو بچانے کی ضرور کوشش کرے گا، چنانچہ ایسا ہی ہوا اور محاصرہ کی اطلاع پا کر بایزید نے بجائے سیو اس جانے کے فی الفور انگورہ کی طرف کوچ کر لیا، وہاں پہنچ کر اس نے دیکھا کہ تیمور شہر کے شمال مغرب کی جانب جو فوجی نقطۂ نظر سے میدان کا بہترین حصہ ہے، اس کا انتظار کر رہا ہے ، تیمور نے صرف یہی نہیں کیا کہ میدان کے اس حصہ پر قبضہ کر لیا بلکہ اس نے بایزید کے مقابلہ کے لیے اور تمام ضروری اور احتیاطی تدبیریں بھی کر لی تھیں، وہ بایزید کی قوت سے پوری طرح واقف تھا ، اس لیے ہر ممکن طریقہ سے اسے کمزور کرنے کے ذرائع اختیار کر چکا تھا، بایزید کی فوج میں ایک بڑی تعداد تا تاریوں کی بھی تھی۔
تیمور کے خفیہ ایجنٹ بھیس بدل کر عثمانی لشکر میں جاتے تھے اور ان تاتاریوں کو اندر اندر بایزید کے خلاف ابھارتے رہتے تھے، یہاں تک کہ ان کی عصبیت برانگیختہ ہو گئی اور وہ عین جنگ کی حالت میں ٹوٹ کر تیمور کی فوج سے جاملے۔ بایزید کےبخل کی وجہ سے فوج پہلے ہی سے بد دل ہو چکی تھی ، جسے تیمور کے جاسوسوں کی ریشہ دوانیوں نے اور بھی تیز کر دیا تھا، عثمانی فوج کے افسروں نے یہ حالت دیکھ کر بایزید کو جنگ سے باز رکھنے کی کوشش کی مگر اس نے مطلق التفات نہ کیا اور اپنی قوت کے گھمنڈ میں تیمور کی فوجی طاقت کا صحیح اندازہ بھی نہ کر سکا، اس نے یہ بھی نہ کیا کہ اس موقع پر فراخ دلی سے کام لے کر سپاہیوں کو انعام واکرام سے خوش کرتا ، بر خلاف اس کے تیمور کے مقابلہ میں محض اپنی شان استغنا کا مظاہرہ کی غرض سے وہ انگورہ پہنچنے کے بعد ایک روز پوری فوج کو ساتھ لے کر شکار کے لیے روانہ ہو گیا ، جس مقام پر یہ شکار طے پایا تھا وہاں پانی بہت کم تھا اور پانچ ہزار عثمانی سپاہی پیاس کی شدت سے مر گئے، جو باقی رہ گئے وہ بھی گرمی اور پیاس کی تکلیف سے بہت تباہ حال ہو رہے تھے۔
بایزید جب شکار سے واپس آیا تو اس نے دیکھا کہ اس کی لشکر گاہ پر تیور کا قبضہ ہے اور جس چشمہ سے عثمانی فوج پانی لے سکتی تھی ، اس کا رُخ بھی تاتاریوں نے پھیر دیا ہے، جس کی وجہ سے پانی بہت کم دستیاب ہو رہا تھا ، حالات کی نا مساعدت میں اس واقعہ نے اور بھی اضافہ کیا، بایزید کے لیے اب بلا تاخیر جنگ شروع کر دینے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا، چنانچہ 4 شنبہ 17 / ذی الحجہ 804 ھ (20 / جولائی 1402ء ) کو وہ فیصلہ کن معرکہ پیش آیا جس نے بقول گبن تیمور کی شہرت و عظمت کو حیات ابدی بخش دی اور بایزید کی ذلت و رسوائی کو ہمیشہ کے لیے تاریخ کا حصہ بنادیا۔ لڑائی طلوع فجر سے قبل شروع ہو گئی تھی اور غروب آفتاب کے بعد تک جاری رہی، اس روز بایزید نے سپہ گری اور سپہ سالاری کے جو ہر خوب خوب دکھائے ، اس کی خاص فوج نے بھی غیر معمولی شجاعت سے کام لیا اور نہایت جان بازی کے ساتھ تاتاریوں کا مقابلہ کرتی رہی لیکن تیمور کی فوجی قابلیت اور اس کی فوج کی کثرت کے سامنے بایزید کی ساری کوششیں بے کار نظر آنے لگیں۔
اس کے علاوہ سب سے زیادہ نقصان اسے خود اپنے سپاہیوں سے پہنچا، اس کی فوج کے تاتاری دستے پہلے ہی سے غداری کے لیے آمادہ تھے، وہ لڑائی شروع ہونے کے تھوڑی ہی دیر بعد تیمور کی فوج سے جاملے ، اناطولیہ کی تر کی ریاستوں مثلاً ایدین ، منتشا،صاروخاں اور کرمیان کے دستے بھی جن کو بایزید نے بالجبر اپنی فوج میں بھرتی کیا تھا، عین موقع پر غدار ثابت ہوئے اور سب کے سب بھاگ کر اپنے اپنے امیروں کے علم کے نیچے پہنچ گئے، جو تیمور کی فوج میں بایزید کے فوج کے خلاف لڑ رہے تھے، البتہ اسٹیفن اپنے سروی دستوں کے ساتھ وفاداری اور جاں بازی کا حق ادا کرتا رہا لیکن لڑائی ختم ہونے سے پہلے ہی اسے بھی راہ فرار اختیار کرنی پڑی اب صرف بایزید دس ہزار ینی چری کے ساتھ میدان میں باقی رہ گیا تھا، اس مختصر فوج نے سات آٹھ لاکھ تاتاریوں کے مقابلہ میں جیسی حیرت انگیز شجاعت کا ثبوت دیا ، اس کی مثال خود ینی چری کی تاریخ میں کم نظر آتی ہے لیکن آخر کار گرمی اور پیاس کی شدت نے ان کے باز و کمزور کر دیے اور تاتاریوں کی کثرت غالب ہو کر رہی ۔
بایزید کے بعض افسروں نے لڑائی کی حالت دیکھ کر چند گھنٹے پیش تر ہی اسے میدانِ جنگ چھوڑنے کی رائے دی تھی، لیکن اس نے اس مشورہ کو حقارت کے ساتھ ٹھکرا دیا تھا، اب جب کہ وقت نکل چکا تھا، بایزید نے بھاگنے کی کوشش کی مگر محمود خان چغتائی نے تعاقب کر کے اسے گرفتار کر لیا، اس کے پانچ لڑکوں میں سے جو لڑائی میں شریک تھے، تین دشمن کی زد سے بچ کر نکل گئے ، شہزادہ سلیمان نے یورپ کا رخ کیا ، شہزادہ محمد نے اماسیا پہنچ کر دم لیا اور شہزادہ عیسی کرمانیہ کی طرف بھاگا، شہزادہ موسیٰ گرفتار ہوا، پانچویں لڑکے شہزادہ مصطفیٰ کا حشر معلوم نہ ہو سکا، ممکن ہے لڑائی میں مارا گیا ہو، بہر حال وہ ایسا غائب ہوا کہ پھر کسی کو اس کا سراغ نہ ملا۔
قیدی سلطان:۔
آل تیمور کا مؤرخ شرف الدین علی بیان کرتا ہے کہ جب بایزید قیدی کی حیثیت سے دست بستہ تیمور کے سامنے لایا گیا تو تیمور نے بڑھ کر اس کا استقبال کیا اور اس کے ہاتھ کھلوا کر عزت و احترام کے ساتھ اپنے قریب بٹھایا ، پھر اس کی حالت پر افسوس اور ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگا کہ:۔
"اگر چه احوال عالم تمام تر خداوند تعالی کے ارادہ و قدرت کے مطابق پیش آتے ہیں اور کسی دوسرے کو حقیقتا کوئی اختیار واقتدار حاصل نہیں ہے، تاہم انصاف اور حق یہ ہے کہ تم پر جو مصیبت آئی ہے، وہ خود تمہاری لائی ہوئی ہے، تم نے بار ہا اپنے حد سے باہر قدم رکھا اور بالآخر مجھے انتظام پر مجبور کر دیا، پھر بھی چونکہ تم اس دیار میں کفار سے جہاد کررہے تھے، میں نے بہت کچھ صبر کیا اور ان حالات میں جو فرض ایک خیر اندیش مسلمان کا تھا، اسے بجالایا، میری خواہش تھی کہ اگر تم فرماں برداری کی راہ اختیار کرو تو مال و لشکر کی جس قدر ضرورت تمہیں ہو اس سے تمہاری مدد کروں تا کہ تم اطمینان وقوت کے ساتھ جہاد میں مشغول رہ سکو اور دیار اسلام کے اطراف واکناف سے بے دینوں کے شرک کی شوکت کو فنا کر دو لیکن تم نے سرکشی اور عناد اختیار کیا حتیٰ کہ معاملہ یہاں تک پہنچ گیا، سب جانتے ہیں کہ اگر صورت حال اس کے برعکس ہوتی اور یہ قوت و غلبہ جو خدا وند تعالیٰ نے مجھ کو بخشا ہے تم کو حاصل ہوتا تو اس وقت مجھ پر اور میرے لشکر پر کیا گزرتی لیکن اس فتح کے شکرانے میں جو خدا کے فضل وعنایت سے مجھے حاصل ہوئی ہے، میں تمہارے اور تمہارے آدمیوں کے ساتھ بھلائی کے سوا کچھ نہ کروں گا ، دل کو مطمئن رکھو ۔بایزید نے انفعال کے ساتھ اپنی غلطی کا اعتراف کیا اور آئندہ کے لیے اطاعت کا وعدہ کیا، تیمور نے اسے خلعت شاہانہ پہنا کر مزید لطف و عنایت کی توقع ولائی ، اس کی خواہش پر شہزادہ موسیٰ بھی جو قید میں تھا، آزاد کر کے اس کے پاس بھیج دیا گیا اور تیمور نے ان کے رہنے کے لیے اپنے خیمہ کے قریب ایک عالی شان خیمہ نصب کر ایا اور بعض عالی مرتبت امرا کوان کی خدمت میں مامور کیا ، بروصہ سے جب حرم سلطانی لایا گیا تو تیمور نے شہزادی ڈسپنا اور اس کی لڑکی کو بھی بایزید کے پاس بھجوا دیا"۔
بایزید کی موت:۔
لیکن یہ مراحم خسروانہ بایزید کے زخمی دل کے لیے نمک کا کام دے رہے تھے اور شاہی خیمہ بھی اس کے لیے قید خانہ سے کم نہ تھا، اپنی سابق عظمت وسطوت کی یاد سے کسی لمحہ چین نہیں لینے دیتی تھی، اضطراب یہاں تک بڑھا کہ اس نے آخر کار بھاگنے کا عزم کر لیا لیکن اس کی اس کوشش کی اطلاع تیمور کو ہوگی، نتیجہ یہ ہوا کہ اب اس کی نگرانی سختی کے ساتھ کی جانے لگی ، تا تاری لشکر جب ایک مقام سے دوسرے مقام کو کوچ کرتا تو تیور بایزید کو بھی ساتھ لیتا جاتا لیکن تشہیر سے بچنے کے لیے بایزید ایک پالکی میں سفر کرتا تھا، جس پر پردہ پڑا رہتا تھا ، اس پالکی میں لوہے کی جالی کا کام تھا، جس کی بنا پر مشہور ہو گیا کہ تیمور قیدی سلطان کو لوہے کے پنجرے میں بند رکھتا ہے اور جہاں جاتا ہے اپنے ساتھ اس پنجرے کو بھی لے جاتا ہے، بہر حال بایزید کے قلب و دماغ پر اپنی قید و رسوائی کا اس قدر جاں گاہ اثر پہلے ہی پڑ چکا تھا کہ وہ زیادہ دنوں تک اسے برداشت نہ کر سکا اور صرف آٹھ مہینے بعد اس کی روح قفس عنصری اور قفس فولادی دونوں سے بیک وقت آزاد ہو گئی، تیمور کو جب اس کی اطلاع ہوئی تو اس کی آنکھوں سے آنسو نکل آئے ، اس فاتح کشور کشا کے لیے بھی جس نے لاکھوں انسانوں کو قتل کرا دیا اور دل میں تاثر کی خفیف سی لرزش بھی محسوس نہ کی ، آل عثمان کے اتنے جلیل القدر سلطان کی یہ عبرت انگیز موت ایک دردناک واقعہ تھی، تیمور نے موسیٰ کو آزاد کر کے بایزید کی نعش شاہانہ احترام کے ساتھ بروسہ کو روانہ کی جہاں وہ سابق تاج داران عثمانی کے پہلو میں سپردخاک کر دی گئی، خود تیمور بھی اس کے بعد دو ہی سال زندہ رہا۔
سلطنت عثمانیہ کا ظاہری خاتمہ:۔
جنگ انگورہ نے صرف بایزید کی زندگی کا خاتمہ نہیں کیا، بلکہ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ سلطنت عثمانیہ بھی نیست و نابود ہوگئی ، تیمور نے ان تمام تر کی امیروں کو جن کی ریاستیں سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لی گئی تھیں، پھر ان کی حکومتوں پر برقرار کر دیا اور ایشیائے کوچک کا کوئی علاقہ آل عثمان کے ہاتھ میں باقی نہ رہا۔
تبصرہ کریں