امیرِتیمور جس نے دنیا ہلا ڈالی
چنگیز خان کی موت کے بعد اسکی سلطنت ایشیا میں صدیوں تک قائم رہی۔یہاں تک کہ 13ھرویں صدی عیسوی کے درمیاں میں منگول آ پس کی خانہ جنگی میں تباہی کا شکار ہو کر مختلف چھوٹی چھو ٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گے تھے۔آج ہم آپکو ایک ایسے شخص کی زندگی کے بارے میں بتائیں گےجس نے منگولوں کی رہی سہی طاقت کو کچلتے ہوئے ایشیا میں ایک عظیم الشان سلطنت قائم کی۔اور پھر وہ شخص یعنی کہ امیر تیمور چنگیز خان کی طرح مسلمانوں پر ٹوٹ پڑا۔
امیر تیمور 1335عیسوی میں سمرقند کے قریب ایک ترک قبلیے "برلاس" میں پیدا ہوا۔امیر تیمور کی پیدایش کے بعدایلخانی خان ابو سعید اور چغتای خان کے قتل کے بعد ان دونوں سلطنتوں میں بغاوت شروع ہو گی تھی۔ایلخانیوں نے تو بغاوت پر قابو پا لیا جبکہ چغتای سلطنت دو حصوں میں تقسیم ہو گی۔مشرق کی جانب نئی سلطنت غیر مسلم قبائیلی مغولستان قائم ہوی جہاں چغتایوں کی حکومت قائم رہی۔مغرب کی جانب ماورا النہرمیں اسلامی حکوت قائم ہوئی جسے آگے چل کر امیر تیمور نے اپنی سلطنت کا دار الحکومت بنایا۔
"تیموری سلطنت کا دار الحکومت شہر سمر قند"
سنہ 1358عیسوی میں چغتای خان نے ماوراالنہر پر حملہ کیا اور اس نے اپنے بیٹے "الیاس" کواس علاقے کا گورنر بنا یا۔الیاس کے اس حملے سے پہلے ہی برلاس قبیلے کا سردار بھاگ گیا،اس پر تیمور نے برلاس سردار کو اس بات پر راضی کر لیا کہ گر وہ اسے نیا قبایلی سردار بنا دے تو وہ تاتاریوں کو اپنے علاقے سے نکا ل دے گا۔اور یہیں سے امیر تیمور کی فتوحات کا آغاز ہوتا ہے۔سنہ1363عیسوی میں جب تغلق تیمور کی موت ہوتی ہے توتیمور اپنے اتحادی امیر حسین کے ساتھ مل کر تاتاریوں کو واپس مغو لستان دکھیل دیتا ہے۔لیکن اس جنگ میں تیمور کو دایں ٹانگ میں ایک تیر لگتا ہے،جس سے وہ ساری زندگی لنگڑا کر چلتا رہا اور اسی نسبت سے اسے امیر تیمور لنگ بھی کہا جانے لگا۔
سنہ 1365عیسوی میں امیر تیمور امیر حسین کے ساتھ مل کر تاتاریوں کو شکست دے چکا تھا ۔1370 عیسوی تک ماوراالنہر میں مکمل طور پر تیمور کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔امیر تیمور چونکہ چنگیز خان کی اولاد میں سے نہیں تھا س لیے اس نے اپنے نام کے ساتھ خان نہی لگا یااس کی سلطنت اسکے اپنے نام "تیموری سلطنت" کے نام سے آگے چلی۔لیکن امیر تیمور کا چنگیز خان سے یہ تعلق ضرور تھا کہ اس نے ایک چنگیزی شہزادی سے شادی کی تھی۔1370 عیسوی میں ہی اس نے سمر قند شہر کو آباد کیا اوراسے اپنی سلطنت کا دارالحکومت بنایا۔1370عیسوی کے بعد اس نے آس پاس کے علاقوں پر حملے شروع کیے۔اس نے ہمسائی چغتای سلطنت کے نئے خان قمر الدین اور خوارزم کی صوفی سلطنت پر حملہ کیا۔دوسری جانب"گولڈن ہورڈ" سلطنت میں "توقطامش " نے پوری سلطنت پر قبضہ کر لیا تھا،1379میں تیمور خوارزم میں داخل ہو اور اس نے "گرکانج" شہر پر حملہ کر کے تمام آبادی کو ختم کر دیا۔لیکن یہ تو صرف اسکی بربریت کا آغاز تھا۔امیر تیمور کی فوج کا زیادہ تر حصہ چغتای تاتاریوں پر مشتمل تھا جو بہتر ین تیراندازی، گھڑ سواری اور تلوار بازی میں کمال مہارت رکھتے تھے سو تیمور نے انہی کی مدد سے باقی ترک فوج کو مضبوط بنایا۔لیکن تیمور کی فوج کی اصل طاقت تیمور خود تھا۔وہ ہمیشہ دشمن کی کمزوریوں کو دیکھ کر حملہ کیا کرتا تھا۔جبکہ اسکے علاوہ اسکی فوج اسکے ساتھ وفادار بھی تھی۔
سنہ 1381 عیسوی میں تیمور ا ایلخانی سلطنت کو فتح کرنے نکلااور وہ خراسان کو فتح کرتے ہوے ایران جا پہنچا۔1381 عیسوی کے اختتام تک اس نے ایلخانی سلطنت کے 2 بڑے شہر تبریز اور سلطانیہ فتح کیے، اس وقت ان شہروں پر ایلخانی سلطان احمد کی حکومت تھی۔1385عیسوی تیمور واپس اپنی فوج کے ساتھ سمرقند چلا گیا۔1386 عیسوی میں تیمور اپنی فوج کے ساتھ مغرب کی طرف روانہ ہوا۔اور اسنے سلطان احمد سے آذربھائی جان چھین لیا اور پھر تیمور جارجیا میں داخل ہوا اور اس نے جارجین بادشاہ کو قتل کر ڈالا۔اسی سال اس نے ایک اور ایلخانی شہزادے سے اصفحان چین لیا۔
"امیرِ تیمور تبریز کی فتح کے بعد فاتحانہ انداز میں اپنی فوج کے ساتھ شہر میں داخل ہوتے ہوئے"
سنہ 1386عیسوی کے اختتام میں گولڈن ہورڈ کے نئے خان "توکتامش" نےامیر تیمور کے واپس جانے کے بعدباکواور تبریز کو فتح کر کے اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔ توکتامش نے ایلخانی اور چغتای خان سے ایک دوستانہ معاہدہ کیا تاکہ وہ تیمور کے خلاف اتحاد کر سکیں۔1387عیسوی میں توکتامش بحر قزوین کے راستے تیموری سلطنت میں داخل ہوا اور اس نے کاشغر اور تاشقند کو فتح کر لیا اب توکتامش امیر تیمور کے دارالحکومت سمر قند اور بخارا کو فتح کرنا چاہتا تھا۔لیکن اسی دوران توکتامش کو واپس جانا پڑا،اس کے جانے کے بعد امیر تیمور نے تمام چھینے ہوے علاقے توکتامش سے واپس لے لیے۔پھر امیر تیمور نے مغولستان کے خان "کمار الدین" کے خلاف جنگ لڑی جو امیر تیمور کے خلاف توکتامش کا اتحادی تھا۔اس جنگ میں کمار الدین کو شکست ہوی ،فتح کے بعد اب امیرِ تیمور گولڈن ہورڈ سلطنت کو فتح کرنے کی تیاریاں کرنے لگا۔سامان رسد اور فوج کو جمع کرنے کے بعد امیرِ تیمور جنوری 1391 عیسوی کو گولڈن ہورڈ سلطنت میں داخل ہوا۔ امیرِ تیمور اپنی فوج کے ساتھ جب دریائے اورال کے کنارے پہنچا تو تب توکتامش کو خبر ملی کہ امیرِ تیمور نے اسکی سلطنت پر حملہ کر دیا ہے ،توکتامش نے اپنی فوج کو جمع ہونے کا حکم دیا،لیکن اس سے پہلے کہ توکتامش کی فوج جمع ہوتی امیرِ تیمور دریا عبور کر چکا تھا۔
اس پر توکتامش نے اپنے لشکر کے ساتھ پسپائی شروع کر دی لیکن چند دستے جو ابھی رستے میں تھے وہ امیرِ تیمور کے ہاتھوں مارے گے۔اسی دوران توکتامش اپنی فوج جمع کر چکا تھا اس نے میدان میں لگے گھاس کو آگ لگوادی تاکہ اس بہار کے موسم میں امیرِ تیمور کے لشکر کو چارہ نہ مل سکے۔ امیرِ تیمور نے عمر شیخ کی کمان میں 20ہزار کے بہترین گھڑسوار روانہ کیے تاکہ وہ توکتامش کو جنگ کے لیے مجبور کریں۔اور بالآخر 18جون1391 عیسوی کو عمر شیخ نے توکتامش کو جنگ کے لیے مجبور کیا اور اس دوران امیر تیمور بھی مرکزی فوج کے ساتھ میدان میں آ پہنچا۔دونوں لشکر جنگ کے لیے تیار تھے۔ امیرِ تیمور کے دونوں بازوؤں پر بہترین گھڑ سوار دستے موجودتھے ،اور ان کی کمک کے لیے اس نے اپنے زاتی باڈی گاڈز پیچھے کھڑے کیے۔جبکہ پیدل فوج کی رہنمای امیر تیمور خود کر رہا تھا۔جنگ کا آغاز توکتامش کی طرف سے ہوا اس نے تمام فوج کے ساتھ امیرِ تیمور کی فوج پر حملہ کر دیا، اسکا یہ ابتدائی حملہ کسی حد تک کامیاب بھی رہا لیکن اس حملے کے بعد توکتامش کے چند دستے بھاگ کھڑے ہوے ان دستوں کے بھاگنے کی دیر تھی کہ توکتامش کی فوج کے حوصلے پست ہو گے امیرِ تیمور نے کمانڈروں کو حکم دیا کہ توکتامش اور اسکی فوج کا تعاقب کر کے انہیں قتل کر دیا جائے۔اس پسپائی میں توکتامش کا دایاں اور مرکزی دستہ تیموری فوج کے ہاتھوں مارا گیا جبکہ توکتامش چند ایک دستوں کو ہی بچانے میں کامیاب رہا۔جنگ میں فتح کے بعد امیرِ تیمورنے "تیمور کچلک" کو گولڈن ہورڈ "سلطنت کا نیا خان بنایا ،اور پھر امیرِ تیمور واپس سمر قند چلا گیا۔
"دریائے تیرک کے کنارےامیرِ تیمور اور توقتامیش کے درمیان ہونے والی جنگ"
آگست 1392 عیسوی کو تیمور نے 5 سالہ مہم کے کے دوران ایران کو مکمل طور پر فتح کیا،اور اب تیموری سلطنت کی سر حدیں عراق کے ساتھ ملتی تھیں۔آگست 1393عیسوی کو امیرِ تیموراچانک بغداد جا پہنچا۔ سلطان احمدامیرِ تیمور کے یوں اچانک حملے سے بلکل بے خبر تھے لہذا سلطان احمد نے مملوک سلطنت کی طرف بھاگ جانے میں ہی عافیت سمجھی اور بغداد امیرِ تیمور نے بغیر لڑے فتح کیا۔بغداد میں چند سپاہیوں کو چھوڑنے کے بعدامیرِ تیمور جارجیا چلا گیا اور اس دوران سلطان احمد نے بغداد پر قبضہ واپس لے لیا۔1393 عیسویٰ کا سال امیرِ تیمورنے جارجیا میں گزارا اور سردیوں میں وہ گولڈن ہورڈ سلطنت کی سر حد کے پاس چلا گیا۔ادھر گولڈن ہورڈ سلطنت میں توکتامش نے سلطنت پر قبضہ واپس لے لیا تھا اور اس نے امیرِ تیمور کے خلاف عثمانیوں اورمملوکوں سے اتحاد کیا۔جبکہ امیرِ تیمور یہ اتحاد بلکل بھی نہی چاہتا تھا۔امیرِ تیمور اور توکتامش کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی لیکن اسکا کوئی خیر خاہ نتیجہ نہ نکل سکا اور آخر کار جنوری 1395 عیسوی کو امیرِ تیمور نے توکتامش کے خلاف جنگ کے لیے فوج کو کوچ کا حکم دیا۔ اپریل میں امیرِ تیمور دریاے "تیرک" کے کنارے توکتامش کو پکڑنا چاہتا تھا۔امیرِ تیمور دریا کے کنارے کنارے چلنے لگا ، جس پر دریا کے اس پار توکتامش بھی دریا کے کنارے امیر تیمور کے لشکر کے ساتھ ساتھ چل رہا تھا۔لیکن امیر تیمور نےیہاں ایک چال چلی اس نےتیسرے دن رات کو لشکر میں موجود عورتوں کو سپاہیوں کا لباس پہنا کر انہیں اپنی جگہ روانہ کر دیا۔اورخود امیر تیمور اپنے مرکزی لشکر کے ساتھ خاموشی سے واپس دریا کے پل کو عبور کرتے ہوےتوکتامش پر حملہ کرنا چاہتا تھا لیکن توکتامش کو امیر تیمور کی اس چال کا پتہ چل گیا۔جس پر امیر تیمور پسپای اختیار کرتاہوا اپنے پسند کے میدان میں آ پہنچا اس نے لشکر کے گرد ایک حفا ظتی دیوار بنوائی۔
15 جنوری کی صبح کو دونوں لشکر آمنے سامنے تھے ۔ توکتامش نے دائیں جانب موجود دستے کو حملے کا حکم دیا جس نے امیر تیمور کے بائیں جانب موجود دستے پر حملہ کیا۔اس حملے سے امیر تیمور نے بائیں جانب موجود دستے کوانکی مدد کے لیے روانہ کیا ،لیکن گولڈن ہورڈ دستہ بھاگ کھڑا ہوا۔اور تیموری دستہ انکا پیچھا کرتے ہوئے جب کافی دور نکل آیا تو توکتامش نے اس دستے کو گھیر لیا اور بے شمار تیموری گھڑ سوار مارے گئےجبکہ چند ایک ہی زندہ بچنے میں کامیاب رہے۔بظاہر امیر تیمور یہ جنگ ہار چکا تھا،اس ابتدائی شکست کے بعد امیر تیمور نے پسپائی اختیار کی اور وہ اپنے خیموں میں چلے گے ۔ توکتامش اپنی فوج کے ساتھ انکے پیچھے تھا۔امیر تیمور کے کمانڈروں نے توکتامش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور اس دوران تیموری فوج کے جو دستے بھاگ گے تھے وہ بھی واپس آ گے ۔ اور شام تک جنگ ہوتی رہی۔16 جنوری کی صبح کو دونوں فوجیں قطار بنا کر کھڑی تھیں۔توقطامش نے بائیں بازو کے دستے کو امیر تیمور کے دائیں دستے پر حملے کا حکم دیا،امیر تیمور کے سپاہیوں نےتوکتامش کے دستے کو کمال مہارت سے پسپا کیا۔لیکن اس میں زیادہ نقصان امیر تیمور کی فوج کا ہوا۔
لیکن جنگ کا دوسرا دن امیر تیمور کے لیے بہترین ثابت ہوا۔امیر تیمور نے ایک خط توکتامش کے کمانڈر"آکتاؤ"کو بھیجا اور اس سے وعدہ کیا کہ اگر وہ اپنے دستے کے ساتھ میدان سے بھاگ جائےگا تو اسے بدلے میں سونا اور چاندی دیا جائے گا ۔جس پر توکتامش کے کمانڈر نے ایسا ہی کیا اور رات کو "آکتاؤ" اپنے سپاہیوں کے ساتھ میدان سے چلا گیااگلے دن اپنے کمانڈر کی غداری کو دیکھ کر توکتامش کافی بد دل ہوا لیکن اس نے ہار نہ مانی اور اس نے ایک فیصلہ کن حملے کے لیے پوری فوج کے ساتھ حملہ کیا اور شام تک جنگ جاری رہی۔لیکن اس جنگ میں امیر تیمور کی فوج کا پلہ بھاری رہا ۔توکتامش کا بہت سے سپاہی مارے گے، جبکہ خود توکتامش مشکل سے جان بچانے میں کامیاب ہوا۔اور توکتامش کو میدان سے بھاگنا پڑا۔ توکتامش نے ایک کمانڈر کو امیر تیمور کے دستوں کو الجانے کے لیے واپس بیجا جس سے توکتامش کو بھاگنے کا موقع مل گیا۔لیکن اسکا کمانڈر اپنے سپاہوں سمیت مارا گیا۔ پھر توکتامش کبھی بھی امیر تیمور کے مقابلے میں نہ آ سکا ۔امیر تیمور نے گولڈن ہورڈ سلطنت کے شہروں کو فتح کرنے کے بعد" تیمور کچلک" کو گولڈن ہورڈ " سلطنت کا خان بنایا اورایک کماڈر"ایڈیگو" یہیں مقیم کیا اور اسے سخت ہدایات دیں کہ توکتامش دوبارہ فوج جمع نہ کرے۔
"توقتامیش کے خلاف امیرِ تیمور کی آخری جنگ جس میں شکست کے بعد پھر کبھی بھی توقتامیش امیرِ تیمور کے سامنے نہ آ سکا"
توقطامش کو شکست دینے کے بعد امیر تیمور گولڈن ہورڈ سلطنت کے شہروں کو تباہ کرتا ہوا1396عیسوی میں سمر قند جا پہنچا۔جہاں اس نے "منگ سلطنت" کے سفیر کو قید کر لیااور نئ "یو آن" سلطنت کے سفیر کا خیر مقدم کیا۔اسی دوران امیر تیمور کے جاسوس اسے "دہلی سلطنت" کی کمزوریوں کی اطلاع بھیجتے ہیں۔دہلی میں علاولدین خلجی نے منگولوں کا مقابلہ کرتے ہوے دہلی کو منگولوں کی یلغار سے محفوظ رکھا ہوا تھا۔ 1316 عیسویء میں علاؤالدین کی وفات کے بعد انکا چھوٹا بیٹا اپنے وزیر ملک کیفور کے ساتھ مل کر سلطنت کے انتظامات چلانے لگا۔لیکن جلد ہی ملک کیفر کا قتل ہو گیا اور علاؤلدین کے بیٹے مبارک شاہ نے چھوٹے بھائی کو معزول کرتے ہوئے تخت پر قبضہ کر لیا۔مبارک شاہ صرف 4 سال ہی حکومت کر سکا کیونکہ 1320 عیسوی میں اسکے ایک وزیر نے اسے قتل کر دیا تھا۔اوریو ں دہلی میں خلجی سلطنت کا خاتمہ ہو گیا۔
1320عیسوی میں ہی علاولدین خلجی کے ایک کمانڈر غیاث الدین تغلق شاہ نے تخت پر قبضہ کرتے ہوئے "تغلق سلطنت " کی بنیاد رکھی۔تاریخی حوالوں کے مطابق"غیاث الدین " کا تعلق خانہ بدوش قبلیےNegoderi یا پھر منگول قبیلے سے تعلق تھا ۔جو کہ سلطان علاولدین خلجی کے انکل کے دور حکومت میں دہلی سلطنت میں آیا تھا۔غیاث الدین کی وفات کے بعداسکے جانشین" فیروز شاہ ا ور محمد تغلق" نے سلطنت کو قائم رکھا لیکن فیروز شاہ کی وفات کے وقت دہلی سلطنت کمزور ہو گی یہاں تک کہ بنگال اور دکن نے علیدگی اختیا کر لی۔1388عیسوی میں فیروز شاہ کی وفات کے بعد تخت کے لیے جنگیں شروع ہو گی۔فیروز شاہ کی وفات کے بعد اسکا پوتا خان جہان تخت نشین ہوا جسے چند ماہ بعد قتل کر دیا گیا،جس کے بعد ایک اور شہزادہ ابو بکر شاہ تخت نشین ہوا۔جس پر شہزادے محمد نے 3 بار بغاوت کی اور آخری بار وہ اپنے سپاہیوں کے ساتھ دہلی کے تخت تک جا پہنچااور اس نے اپنے باپ کے غلاموں کی فوج کو قتل کر دیا اوراس نے 1390عیسوی میں تخت پر قبضہ کر لیا۔
شہزادہ محمد 4سال بعد 1394 عیسوی میں وفات پا گیا۔اس کے بعد اسکا بیٹا ہمایوں تخت نشین ہوا جسکا 2 ماہ بعد انتقال ہو گیا۔ہمایوں کی وفات کے بعد اسکا چھوٹا بھائی محمد شاہ تخت نشین ہواجس کے مقابلے میں نصرت شاہ نے سلطان ہونے کا دعویٰ کیا۔تخت کی اس جنگ میں 2 اور کرداروں کا اضافہ ہو ا۔ جو کہ سرنگ خان اور مالو اقبال تھے، جنہوں نے دونوں سلطانوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوے سلطنت پر کنٹرول حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اس 10سالہ خانہ جنگی میں جو کہ 1388سے1398تک جارہ رہی،میں دہلی سلطنت کافی کمزور ہو گی۔
"امیرِ تیمور کے دور میں دہلی سلطنت کا رقبہ"
نوجوان سلطان کٹھ پتلی بن کر رہ گے اور ان کا اثرو اسوخ دہلی کی دیواروں تک ہی محدود رہ گیا۔1398 عیسوی میں مالو اقبال نے دہلی اور سلطان محمود شاہ کو زیر کرتے ہوے اپنے قدم جما جکے تھے۔اُدھر امیر تیمور دہلی کو لوٹنے اور قتل عام کرنے کے لیے تیار تھا لیکن اس نے پہلے اپنے پوتے"پیر محمد " کو پنجاب بھیجا۔دسمبر 1397عیسوی میں پیر محمد پنجاب میں داخل ہوا اور اس نے مالو اقبال کے بھائی کو شکست دیتے ہوے ملتان کا محاصرہ کر لیا۔یہاں ملتان نے تیموری فوج کا ڈٹ کے مقابلہ کیا جس پر پیر محمد نے کمُک کے لیے اپنے داداامیر تیمور کو خط بھیجا۔جس پر امیر تیمور نے مارچ1398 عیسوی میں 92ہزار کی فوج کے ساتھ سمرقند سے روانہ ہوا۔ستمبر میں امیر تیمور نے دریائے سندھ کو عبور کیا اور یہاں اس نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ایک حصہ امیر سلیمان کی کمان میں پیر محمد کی مدد کے لیے روانہ ہوا۔جبکہ دوسری فوج امیر تیمور کے ساتھ دیپالپور کے طرف روانہ ہوا۔امیرِ تیمورکے ہندستان میں داخل ہونے کے بعد بہت سے سرداروں اور نوابوں نے اس کی اطاعت قبول کر لی۔اُدھر پیر محمد ملتان کو فتح کرنے کے بعد آکتوبر کے اختتام تک امیرِ تیمور کی فوج سے آ ملا۔دیپالپور کی فوج نے پیر محمد کی اطاعت قبول کرتے ہوئے کئ ایک تحفے تحائف بھیجے ،لیکن امیرِ تیمور کے جانے کے بعد بغاوت ہو گی جس میں پیر محمد کا گورنر مارا گیا۔جس پر امیر تیمور نے10ہزار کی فوج کے ساتھ اہل قلعہ کو سزا دینے چل پڑا ،جبکہ باقی فوج امیر شاہ ملک اور دولت تیمور کی کمان میں دہلی کی طرف چلی گی۔
یہ قلعہ راجپوتوں کے پاس تھا جہاں پر "راو دلجیت" کی حکومت تھی اور قلعےکی آبادی میں مسلمان اور ہندو دونوں آبادتھے۔امیرِ تیمور دسمبر کی شروعات میں اچانک قلعے کے سامنے نمودار ہوا اور اس نے قلعے کے باہر موجود تمام آبادی کو قتل کر ڈالا۔تیموری فوج سیڑھیوں کے زریعے دیوار پر چڑ ھنے میں کامیاب ہو گی اور انہوں نے دیوار پر قبضہ کر لیا۔راو دلجیت کے پاس اب سوائے صلح کے اور کوئی چارہ نہ تھا سووہ امیرِ تیمور کے سامنے تحفے اور تحائف لے کر حاضر ہوا اور اس نےہتھیار ڈال دیے۔اس پر امیرِ تیمورنے قلعے سے اپنی فوجیں ہٹا لیں اور8 نومبر کو اس نے تحائف اوراہل شہر کی جان کی امان کے بدلے ہتھیار ڈالنے کو قبول کر لیا۔لیکن اس نے اسی وقت 500 سپاہیوں کو جو کہ سفیر کے ساتھ آئے تھے انہیں قتل کرنے کا حکم دے دیا۔اور راجہ کے اہل خانہ کو قیدی بنا لیا۔اس پر راجہ دلجیت کا کزن جو کہ شہر میں تھااس نے قلعے کے دروازے بند کر دیے، جس پر امیر تیمور نے راو دلجیت کو قتل کر دیا اور شہر کا پھر سے محاصرہ شروع کر دیا گیا۔شہر میں موجود سپاہیوں نے اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں اور بیویوں کو قتل کر دیا تاکہ وہ تیموری فوج کےہاتھ نہ لگیں۔شہر میں موجود ہندو ںاور مسلمان تیموری فوج کے ہاتھوں مارے گے اور قلعہ کو تباہ کر دیا گیا۔اس کے ساتھ مسلمان اور ہندو قیدی بھی تھے پھر امیر تیمو دسمبر کے اختتام میں دریاے گھگر کے پاس اپنے فوجوں سے آ ملا اور اس نے دہلی کی طرف پیش قدمی جاری رکھی اور رستے میں موجود قصبوں کو لوٹتا رہا۔ امیر تیمور دہلی جانے کی بجائے آس پاس کے شہروں اور قلعوں کو فتح کرتا ہوا دریا ئےجمنا کے پاس پہنچا۔امیر تیمور دہلی شہر کا محاصرہ کرنے کے بجائے میدان میں لڑنا چاہتا تھا۔لیکن امیر تیمور11دسمبر کو 700سپاہیوں کے ساتھ دہلی کی طرف روانہ ہوا۔یہاں پر اسے اچانک دہلی کے کمانڈر مالو اکبر کے حملے کا سامنا کرنا پڑا۔اور اس حملے میں امیر تیمور صرف 300 سپاہیوں کو بچا کر میدان سے بھاگنےمیں کامیاب ہوا۔اس ابتدائی فتح کے بعد مالو اکبر واپس قلعے میں لوٹ گیا۔جبکہ امیر تیمور نے اس شکست کا بدلہ 500 قیدیوں کو قتل کر کے لیا۔
"راجپوتوں کے ہاتھوں شکست کے بعد امیرِ تیمور کی میدانِ جنگ سے پسپائی"
14دسمبر کو امیرِ تیمور "پشتی بہالی" کے پہاڑوں کے قریب کے میدانوں میں چلا گیا۔اس بار امیرِ تیمور نے سوچ سمجھ کر میدان کا انتخاب کیا۔سلطان کی فوج میں 10ہزار گھڑ سوار ،40 ہزار پیادہ فوج اور 125 ہاتھی شامل تھے ۔اور سلطان اور مالو اکبر کو جنگ کے دوران کہیں سے مدد کی امید بھی نہیں تھی کیونکہ امیر تیمور نے پہلے ہی آس پاس کے راجاؤں اور شہروں کو تباہ کر دیا تھا۔16 دسمبر کو دونوں فوجیں آمنے سامنے ہویں۔امیرِ تیمور کے دائیں دستوں کی کمان اسکے پوتے پیر محمد کے پاس تھی،اسکے بہترین اور پرانے جنگجو درمیان میں تھے اور باقی فوج بائیں جانب شہزادہ رستم کی کمان میں تھی۔ اُدھر سلطان کی فوج میں مالو اکبر اور سلطان فوج کے درمیان میں تھےان کے آگے پیدل دستہ تھا اور اس دستے کے آگے ہاتھیوں کی فوج تھی اور فرنٹ میں گھڑ سوار دستے موجود تھے۔سلطان کو ان ہاتھیوں پر بڑا ناز تھا ۔جنگ کی شروعات جنگی ڈھولوں کے بجنے سے شروع ہوئی۔جنگ کی ابتدا میں تیموری گھڑ سوار سلطان کی فوج پر حملہ کر کے واپس فوج میں چلے آتےاور یہ سلسلہ کچھ گھنٹوں تک جاری رہا ۔اس حملوں میں اچانک امیر تیمور کے بہتریں گھڑ سواروں نے سلطان کےگھڑ سواروں پر حملہ کر کے انہیں ختم کر دیا۔پھر امیر تیمور کے پیر محمد والے دستے نے حملہ کرتے ہوئے سلطان کے بائیں دستے کو پسپائی پر مجبور کر دیا اور یہی چال امیر تیمور کے بائیں جانب موجود شہزادے نے چلی اور یوں سلطان کے دونوں پہلو خالی ہو گے۔
سلطان اور مالو اکبر نے امیرِ تیمور کا ڈٹ کے مقابلہ کیا لیکن تیموری فوج ہاتھیوں کو زخمی کر چکی تھی جس کی وجہ سے انہیں پسپائی اختیار کرنی پڑی اور شام تک امیر تیمور سلطان کی فوج کو 3اطراف سے گھیر چکا تھا۔رات کے اندھیرے میں سلطان بچے کچھے سپاہیوں کے ساتھ واپس قلعے میں چلے گیے۔امیرِ تیمور نے سلطان کا بلکل بھی پیچھا نہ کیا کیونکہ اسے خطرہ تھا کہ شہر کی تنگ گلیوں میں وہ کہیں سلطان کے جال مین نہ پھنس جائے۔رات کے وقت سلطان محمود اور مالو اکبر قلعے کے دوسرے دروازے سے بھاگ گیے ،امیر تیمور نے انکے تعاقب میں اپنے بہترین جنگجو بھیجے۔ اگلے دن اہل شہر نے ہتھیار ڈال دیے اور امیر تیمور سے جان بخشی کی درخواست کی امیر تیمور نے اس درخواست کو منظور کر لیااور اپنی فتح کی خوشخبری تمام سلطنتوں میں سنائی۔ امیر تیمور کے ساتھ چند محافظ تھے جو کہ شہر میں داخل ہوئے اور انہوں نے اہل شہر سے تاوان وصول کیا۔لیکن یہاں شہریوں اور تیموری فوجوں کے درمیان لوٹ مار کو لے کر جھگڑا ہو گیا ۔جس پر امیر تیمور نے اہل شہر کے قتل عام کا حکم دے دیا۔اور اگلے چند دنوں میں شہر کو تباہ کر دیا گیا۔ اور کئی دنوں تک دہلی تیمور کی لگائی ہوئی آگ میں جلتا رہا۔
"قتل و غارت کے بعد تیموری لشکر دہلی شہر میں داخل ہوتے ہوئے"
31دسمبر1398کو جب امیر تیمور نے دہلی شہر کو چھوڑا تو وہاں لاشوں کے تعفن کی وجہ سے کھڑا ہونا محال تھا۔ کہا جاتا ہے کہ دہلی شہر کو دوبارہ آباد ہونے میں 15 سال لگے تھے امیرِ تیمور کو ہندستان میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی اسی لیے وہ واپس سمرقند چلا گیا۔لیکن ابھی امیرِ تیمور نے ہندستان میں مسلمانوں کی طاقت کو کچلنے کے بعد ایک اور ابھرتی ہوئی مسلم سلطنت سے ٹکر لینی تھے ۔
جب امیرِ تیمور 1398 عیسویٰ میں دہلی کو فتح کرنے کی مُہم پر تھا تواسکی واپسی تک مغرب میں بہت سی تبدیلیاں رو نما ہو چکی تھیں۔1398 عیسویٰ میں امیر کرمانیہ"برہان الدین احمد" کی وفات کے بعد"سیواس"اور کرمانیہ پر عثمانیون کا قبضہ ہو گیا۔پھر عثمانی سلطان بایزید نے مملوکوں سے"ملاٹیا" بھی چھین لیا۔اور آخر میں بایزید نے ارزنوم کا حصہ بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا ۔ اب سلطا ن بایزیدکی سلطنت کی سر حدیں امیرِ تیمور کی سرحدوں سے ملتی تھیں ۔جون 1399 عیسویٰ میں مملوک سلطان"سیف الدین برقوق" وفات پا گئے۔ جس کے بعد انکا 10 سالہ بیٹا "فراج" تخت نشین ہوا ۔ جس کے دورِ حکومت میں مملوک سلطنت کمزور پڑگی۔ دہلی کو چھوڑنے کے بعد امیرِ تیمور سمر قند واپس چلا گیااور اپریل1399 عیسویٰ میں امیرِ تیمور 7 سالہ مُہم پر نکلااس نے رستے میں اپنے بیٹے "مہران شاہ" کو سلطانیہ کی گورنری سے ہٹا دیااور اس ماہ کے آخر میںامیرِ تیمور جارجا میں داخل ہوا ،یہاں اُس نے سردیاں گزاریں۔1400عیسویٰ کے موسم بہار میں اس نے جارجیا میں پیش قدمی جاری رکھی اور اس نے ٹیبلسی کو دوبارہ فتح کیا۔امیرِ تیمور کی اس پیش قدمی کے دوران بغدادمیں موجود سلطان احمد یوسف کے ساتھ سلطنت عثمانیہ میں پناہ لینے کے لیے چلے گے۔امیر تیمورتک یہ خبر پہنچ گی کہ اس کے دشمنوں نے سلطنت عثمانیہ میں پناہ لی ہے۔اس نے موجودہ "آذر بھائی جان" میں موسمِ گرما گزارا جہاں اس نے اپنی فوج کو خوب آرام کروایا ۔پھر 1400عیسویٰ کے موسم خزاں میں امیرِ تیمور اپنی فوجوں کے ساتھ سلطنت عثمانیہ میں داخل ہوا،اور اس نے سب سے پہلے "ارزنوم" کو فتح اور پھر وہ سیواس جا پہنچا،جہاں سلطان بایزید کا بیٹا"شہزادہ سلیمان" موجود تھا۔شہزادے سلیمان نے امیر تیمور کے حملے سے پہلے ہی سیواس کو چھوڑ دیا۔امیرِ تیمور نےسیواس کا 18 دنوں تک محاصرہ کیا اور آخر کار 7ستمبر کو شہر فتح ہو گیا۔امیرِ تیمور نے شہر کے مسلمانوں کے ساتھ ساتھ شہر میں موجود 4ہزار آرمینائی فوجیوں کوبھی اس نے قتل کرا دیا۔
سلطان بایزید یلدرم جو کہ اس وقت "قسطنطنیہ" کے محاصرے میں تھے وہ امیرِ تیمور کے خلاف کوئی قدم نہ اُٹھا سکے۔امیر تیمور نے 15ستمبرکو "ملاتیا"کو فتح کرتے ہوئے شام جا پہنچا۔اور اس نے شام،قاہرہ اور دمشق کو فتح کیا یہاں اس نے مسلمانوں کا خوب قتل عام کرنے کے بعد 19 ستمبر کو وہ واپس سمر قند چلا گیا۔ اور اس کے جانے کے بعد سلطان احمد واپس بغداد چلے آے ۔لیکن اچانک امیر تیمور واپس پلٹا اور اس نے 20ہزار کا ایک لشکر شہزادہ رستم کی کمان میں روانہ کیا ۔ امیرِ تیمور کے آنے کی خبر سنتے ہی سلطان احمد بایزید کی طرف روانہ ہو گے اور انہوں نے ایک کمانڈر فراج کو بغداد شہر کی حفاظت کے لیے پیچھے چھوڑا۔
جون کے شروع میں امیرِ تیمور نے بغداد کا محاصرہ کر لیا۔لیکن کمانڈر فراج نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔لیکن 40 دن کے سخت ترین محاصرے کے بعد اہلِ شہر نے جولائی کوامیرِ تیمور کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔امیرِ تیمور شہر میں داخل ہوا،اس نے اپنے فوجیوں کو حکم دیا کہ ہر بغدادی کا سر اس کے پاس لایا جائے اور ا س کے بعد اس نے 120انسانی کھوپڑیوں کے مینار بنائےاورامیرِ تیمور نے150سال قبل ہلاکو خان کے بغداد پر حملے کی یاد تازہ کر دی۔امیرِ تیمور نے 1401عیسویٰ کا موسم سرما موجودہ آذر بھائی جان میں گزاراجہاں وہ عثمانی سلطان بایزید یلدرم کی سر گرمیوں پر نظر رکھ رہا تھا۔سلطان بایزید نے امیرِ تیمور سے دوبارہ ارزینوم اور سیواس واپس لے لیا۔اب امیرِ تیمور نے سلطان بایزید کو خط بھیجا "کہ سلطان احمد اور یوسف کو میرے حوالے کرواور اس کے ساتھ یہ دھمکی بھی تھی کہ "عقلمند بنواور ہمارے انتقام کو طول نہ دو تم ایک چھیونٹی سے زیادہ کچھ نہیں تم ہاتھی کو غصہ مت دلاؤ نہیں تو تمہیں مسل دیا جاے گا" اس خط کے جواب میں سلطان بایزید ۔"نے اپنا نام گولڈن کلر میں بڑے لفظوں میں لکھا جبکہ امیرِ تیمور کا نام اس نے کالے اور چھوٹے لفظوں میں لکھا۔اور اب ان دونوں سلطنطنوں کے درمیان جنگ ہونی ہی تھی۔اس جنگ سے پہلے امیرِ تیمور نے اپنے ایک پوتے ابو بکر کو 1402 عیسویٰ کی شروعات میں سلطان احمد کو ختم کرنے کے لیے بغداد بھیجا ۔ابو بکر کے اچانک حملے سے سلطان احمد ایک کشتی پر سوار ہو کر مملوک سلطنت میں پناہ لینے چلے گے۔اپریل کے اختتام تک امیرِ تیمور جارجیا جا پہنچااور وہاں سے وہ اناطولہ روانہ ہوا۔جب امیرِ تیمور سلطنت عثمانیہ میں داخل ہوا تو اس وقت سلطان بایزید قسطنطنیہ کا محاصرہ کر رہے تھےاور انہوں نے تمام فوج بروصہ میں جمع کی ہوئی تھی۔اور سلطان نے مزید تاتاری اناطولیہ سے فوج میں بھر تی کیےاور وہ تمام فوج کے ساتھ انقرہ جا پہنچے،جہاں سلطان نے تمام حفاظتی اقدامات کیے اور امیرِ تیمور کی انتظار میں بیٹھ گیا۔لیکن امیر تیمور بایزید کے پسند کے میدان میں لڑنا نہیں چاہتا تھا ۔ سو اسی لیے وہ وہیں رکا رہا ۔سلطان بایزید نے انقرہ میں ایک چھوٹا دستہ چھوڑا اور باقی فوج کے ساتھ امیر تیمور کی طرف چل پڑا ۔ امیر تیمور بہت ذہین اور شاطرانسان تھا اس نے یہاں ایک چال چلی اس نے چند دستے پیچھے چھوڑے جو کہ بایزید کی فوج کو الجھانے کے لیے تھے،اور خود امیر تیمور ایک لمبا چکر کاٹتا ہوا انقرہ جا پہنچا۔یہ خبر سلطان بایزید پر بجلی بن کر گری،اور وہ بھاگتا ہوا انقرہ کی جانب چل پڑا ،اب چونکہ یہ گرمی کا موسم تھا سو اسی لیے عثمانی فوجیں جلد تھک گیں اور اس دوران 20ہزارعثمانی سپاہی گر می کی وجہ سے مارے گے۔ادھر امیرِ تیمور انقرہ کا محاصرہ کیے ہوا تھااس نے عثمانیوں کو مزید دھکچا یہ دیا کہ اس نےدریائے چوبوک پر بند باندھ کر اس کا رخ دوسری جانب مور دیا۔گو کہ یہ کام مشکل تھا لیکن ہندستان سے جو ہاتھی امیر تیمور ساتھ لایا تھا اس نے ان سے یہ کام لیا۔اب پانی پر تیموری فوج کا کنٹرول تھا۔سلطان بایزید یلدرم امیرِ تیمور کی امید سے زیادہ جلدی انقرہ پہنچ آیا۔کچھ عثمانی کمانڈروں نے سلطان بایزید کو اسی وقت حملے کا مشورہ دیا کیونکہ تیموری فوج جنگ کی حالت میں بلکل بھی نہیں تھی۔لیکن مسلسل سفر اور پانی نہ ملنے کی وجہ سے عثمانی فوجیں کافی تھکیں ہوئیں تھیں۔اور سلطان بایزید نے جنگ کے لیے اگلے دن کا انتخاب کیا۔اور امیرِ تیمور کو اپنی فوج کو جمع کرنے کا موقع مل گیا۔
سلطان بایزید 27 جولائی کو انقرہ کے میدان میں پہنچے تھے او راگلے دن 28 جولایئی دریاے چوبوک کے کنارے جنگ کا میدان سجا۔دونوں طرف وسیع پیمانے پر فوج تھی۔لیکن تعداد میں امیرِ تیمور کی فوج زیادہ تھی۔ امیرِ تیمور کی فوج کے 3 حصے تھے۔دائیں بازو پر اسکا بڑا بیٹا شاہ رخ تیمور تھا جبکہ تیمور خود درمیانی دستوں کی کمان کر رہا تھا اور بائیں دستوں پر اسکا چھوٹا بیٹامیران شاہ کمان کر رہا تھا۔ان سب کے آگے 30 لائینوں میں ہاتھی موجود تھے جو کہ انڈیا سے امیرِ تیمور ساتھ لایا تھا۔سلطان بایزید کی فوج امیرِ تیمور سے کم تھی، جسکی تعداد 60ہزار تھی، بایزید درمیان میں تھا جبکہ اسکے ساتھ اسکے 3 بیٹے،ینی چڑی کے دستے اور گھڑ سوار موجود تھے اسکا بیٹا سلیمان رومیلین فوجوں کی کمان کر رہا تھا۔اور اسکا ایک اور بیٹا محمد سربیا کے سٹیفن لازار کے ساتھ موجود تھاجنگ کی شروعات امیرِ تیمور کے دائیں جبکہ بایزید کے بائیں پہلو سے ہوی،عثمانی دستہ جو کہ رومیلین پر مشتمل تھا پسپا ہونے لگا لیکن اس نے تیموری فوج کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔دوسری طرف تیمور نے بائیں بازو کو حملے کے لیے روانہ کیا تیموری دستے کے مقابلے میں سربین نایٹس تھے جو بہترین جنگی ہتھیاروں سے لیس تھے اور انہوں نے تیموری دستے کو پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا، تیموری دستہ پسپائی اختیار کرتا ہوااپنی فوج سے آ ملا ،اورامیر تیمور نے اضافی دستے کو انکی مدد کے لیے روانہ کیا۔لیکن اب تک امیرِ تیمور نے آخری پتہ نہیں کھیلا تھا۔وہ یوں کہ امیرِ تیمور نے سلطان بایزید سے جنگ سے پہلے ہی ان تاتاریوں سے جو سلطنت عثمانیہ کے وفادار تھے انہیں لالچ دے کر عثمانیوں سے بغاوت پر آمادہ کر لیا تھا اور سلطان بایزید اس سے بے خبر تھا۔سو اس جنگ کے میدان میں عثمانی فوج میں شامل ان تاتاری دستون نے امیرِ تیمور کی طرف سےاشارہ ملتے ہی عثمانی فوج کے بائیں پہلو پر حملہ کر دیا جو کہ پہلے سے ہی تیموری فوج کے مد مقابل تھا۔بایزید کا بیٹا محمد جو کہ ا ضافی دستوں پر تعینات تھا اس نے کمک کے طور پر ان غدار تاتاریوں پر حملہ کر دیا۔ اور طویل محاصرے کے بعد شہزادہ محمت رومیلین دستوں کو بچانے کے بعد میدان جنگ سے بھاگ کھڑا ہوا۔جب سربیا کے سٹیفن لازار کو تاتاریوں کی اس غداری کا پتا چلا تو وہ اپنے دستوں کے ساتھ سلطان سے آ ملااب سلطان نے پیچھے موجود "پہاڑ کی جانب پسپائی شروع کر دی،اور اسی دوران لازار اور اسکی فوج میدان سے بھاگ نکلی ،اب سلطان کے ساتھ ینی چڑی فوج اور چند پیدل دستے موجود تھے۔اور تیموری فوج نے انہیں چاروں طرف سے گھیر رکھا تھا۔ عثمانی دستوں نے سرتوڑ کوشش کی لیکن تیموری فوج نے انہیں ختم کر دیا اب بایزید نے 300 گھڑ سواروں کے ساتھ تیموری محاصرے کو توڑا اور بھاگ نکلالیکن جلد ہی سلطان کا گھوڑاتیموری سپاہی کے تیر کا نشانہ بنا اور سلطان گھوڑے سے گر گے ،اور یوں عثمانی یہ جنگ ہار گے۔
"جنگِ انگورہ میں شکست کے بعد عثمانی سلطان بایزید یلدرم امیرِ تیمور کی قید میں"
جب29 جولائی کا سورج طلوع ہوا تو سلطان بایزید کوقیدی کی صورت میں امیر تیمور کے پاس لایا گیا۔اور اسی دن انقرہ کے محصورین نے امیر تیمور کے آگے ہتھیار ڈال دیے۔اور سلطان بایزید کی باقی زندگی امیرِ تیمور کی قید میں گزری۔اس جنگ میں سلطان بایزید کے30ہزار سپاہی مارے گے جبکہ امیرِ تیمور کے صرف 15 ہزار سپاہی قتل ہوئے تھے۔اور اس جنگ کے بعد سلطنت عثمانیہ میں تخت کے لیے بایزید کے بیٹوں میں 10سال تک جنگ جاری رہی۔امیرِ تیمور نے فتح کے بعد پیش قدمی جاری رکھی اور عثمانی مرکز بروصہ کو فتح کر لیا۔دسمبر میں امیرِ تیمور نے سمرنا کے صلیبیوں کے خلاف جنگ میں انہیں شکست دیتے ہوئے امیرِ تیمور 1403عیسویٰ کے موسم بہار میں واپس جانے لگا۔مارچ مین عثمانی سلطان بایزید کی امیرِ تیمور کی قید میں موت ہو گئی اور انہی دنوں میں امیرِ تیمور کے پوتے"محمد سلطان بن جہانگیر کی بھی موت ہو گی۔امیرِ تیمور کی فتح کی خبر سن کر مملوک،طرابزون اور جارجیا کے بادشا ہوں نے امیرِ تیمور کو تحفے تحائف بھیجے۔
1404 عیسویٰ کی گرمیوں میں امیرِ تیمور واپس سمرقند چلا گیااور وہیں اس نے اپنی زندگی کی آخری مُہم پر نکلا اس کی یہ مُہم دراصل چائینہ کی "ِمنگ سلطنت "کو فتح کرنے کے لیے تھی۔
منگ سلطنت کو فتح کی تیاریوں کے دوران امیرِ تیمور کو توقطامش کی جانب سے خط موصول ہوا،جہاں توقطامش نے اپنی غلطی پر امیرِ تیمور سے معافی مانگی اور گولڈن ہورڈ سلطنت کا تخت حاصل کرنے کے لیے مدد کی اپیل کی، کیونکہ امیرِ تیمور نے ہی ایڈیگو کو گولڈن ہورڈ سلطنت کا سلطان بنایا تھا۔امیرِ تیمور نے توقطامش کی پیش کش کو منظور کر لیااور اسکی مدد کی حامی بھری۔ابامیرِ تیمور اپنی زندگی کی آخری جنگ کے لیے سمر قند سے روانہ ہوا۔ لیکن نومبر1404عیسویٰ کا یہ سال اس بوڑھے فاتح کے لیے جان لیوا ثابت ہوااورامیر تیمور بیمار پڑ گیا۔
جنوری 1405 عیسویٰ کے آخر میںامیرِ تیمور اترار شہر کے پاس پہنچا۔یہ خوارزمی سلطنت کا وہ پہلا شہر تھا جہاں 1219عیسویٰ میں منگولوں نے حملہ کیا تھا۔یہاں امیرِ تیمور کی صحت بہت خراب ہو گی اور18 جنوری1405عیسویٰ کو تقریباَ70سال کی عمر میں امیرِ تیمور کی موت ہو گی۔اسکی آخری خواہش تھی کہ منگ سلطنت کی فتح تک اسکی موت کوراز رکھا جاے۔اسکی موت کے بعد پیر محمد اسکا جانشین بنا۔اور امیرِ تیمور کی موت کی خبر پھیل گی جس کی وجہ سے پیر محمد کو یہ حملہ روکنا پڑا۔اور تخت کے لیے امیرِ تیمور کا ایک اور پوتاخلیل سلطان پیر محمد سے لڑتے ہوےتخت پر قبضہ کرنے میں کامیاب ہو گیا۔1409 عیسوی میں امیرِ تیمور کے بیٹے شاہ رخ تیموری نے تخت پر قبضہ کر لیا۔اور اس نے اپنی موت 1447 عیسویٰ تک سلطنت کو قائم رکھا۔ اسکی موت کے بعد اسکا بیٹا "الغ بیغ" تخت نشین ہوا لیکن اسے 1449 عیسویٰ میں قتل کر دیا گیا اور یہیں سے تیموری سلطنت کا زوال شروع ہوتا ہے۔ اور 15ہویں صدی کے آغاز تک تیموری سلطنت مکمل طور پر ختم ہو گی۔لیکن تیموری نسل کا ایک شہزادہ "بابر" ازبکستان سے ہندستان چلا گیا۔جہاں اس نے عظیم مغل سلطنت کی بنیا د رکھی۔
I need this in PDF form