عظیم مسلمان حکمران جنہوں نے ہندستان میں مغلیہ سلطنت کی بنیاد ڈالی۔
ظہیرالدین بابر 6 محرم 888ھ بمطابق14 فروری 1482ء کو پیدا ہوئے۔آپکا اصل نام ظہیر الدین تھا لیکن آپ کو "بابر" یعنی کہ "شیر" کہا جاتا تھا۔بابر کے والد کا نام شیخ مرزا اور والد ہ کا نام قتلغ نگار خانم تھا۔بابر کا سلسلہ نسب تیموری سلطنت کے بانی "امیر تیمور" سے پانچویں پشت میں جا ملتا ہے۔جبکہ بابر کی والدہ چنگیز خان کی نسل سے تھیں،انکی والدہ کا سلسلہ نسب چنگیز خان سے پندرھویں پشت میں جا کر ملتا ہے۔
با کے والد عمر شیخ مرزا سے قبل تیموریوں(امیر تیمور کی نسل) اور منگولوں (چنگیز خان کی نسل) کے درمیان طویل عرصے سے کشا کش چلی آرہی تھی۔ لیکن بابر کے دادا (امیر تیمور کے پڑپوتے) ابو سعید مرزا نے اس کشا کش کا خاتمہ اپنے بیٹوں کی شادی چغتائی خاندان کے فرمانروا کی بیٹیوں سے کر کے کی ۔
بابر اس لحاظ سے خوش قسمت انسان تھے کہ انہیں باپ اور والدہ کی طرف سے علمی سر پرستی میسر آئی تھی۔ بابر کی والدہ قتلغ نگار ایک ذہین اور قابل خاتون تھیں ۔خود بابر بھی بے حد زہین اور زِیرک انسان تھے۔ان کے بچپن سے جوانی تک جن اساتذہ نے ان کو خصوصی تربیت دی ان میں شیخ فرید بیگ ،بابا قلی علی خدائی، بیری بیگ اور خواجہ مولانا قاضی عبد اللہ شامل تھے۔بابر کی مادری زبان ترکی تھی لیکن انہوں نے فارسی اور عربی کی بھی تعلیم حاصل کی۔5سال کی عمر میں بابر کو سمرقند بھیج دیا گیا تھا جہاں وہ 6 برس تک زیرِ تعلیم رہے۔
"سمرقند شہر 1500ء "
بابر کے والد فرغانہ اور اند جان پر حکمران تھے۔899ھ بمطابق 1494ء میں وہ ایک حادثے کا شکار ہو کر وفات پا گئے۔ان کی وفات کے بعد بابر نے رمضان المبارک899ھ بمطابق جون 1494ء میں امرا کی تاکید سے انہوں نے فرغانہ کی حکومت سنبھالی۔اس وقت بابر کی عمر صرف 12 سال تھی۔ نو عمر حکمراں کے لئے یہ وقت انتہائی مشکل تھا۔ کیونکہ اقتدار کے دعوے سار بہت تھے، بابر کے ماموں سلطان محمود مرزا نے حصار کے علاقے سے اور چچا سلطان احمد مرزا نے سمر قند سے فوجی پیش قدمی کر دی۔ اس وقت بابر اند جان چلے گئے۔کچھ دنوں بعد فریقین میں چند شرائط پر صلح ہو گئی۔903ھ بمطابق نومبر 1497ء تک بابر نے اپنے مخالفین پر قابو پا کر سمر قند پر بھی قبضہ کر لیا۔ تاہم انہیں اپنے صدر مقام اند جان میں سازش کی وجہ سے سمر قند چھوڑنا پڑا۔ بابر اند جان گئے اور وہاں سازش کا خاتمہ کیا۔
بابر نے 905ھ بمطابق 1499ء میں فرغانہ کو اپنے اور اپنے بھائی جہانگیر کے درمیان تقسیم کر لیا۔اسی سال بابر نے شادی کی اور اگلے سال بابر نے سمر قند پھر فتح کر لیا۔ لیکن شیبانی خان نے رمضان 906 ھ بمطابق مارچ،اپریل 1501ءمیں بابر کو شکست دی ،اور سامانِ رسد کی کمی کی وجہ سے بابر کو سمر قند چھوڑنا پڑا۔یہ بڑے جان گسل لمحات تھے۔ کیونکہ اب بابر کے لئے کہیں جائے پناہ نہ تھی۔ بابر کئی سال "سُخ"اور ہُشیار" کے خانہ بدوشوں کے پاس رہے۔ آخر کار بابر نے یہ فیصلہ کیا کہ کسی ایسے علاقے کی طرف جا نا چاہیے جہاں ازبک حکمرانوں کو دلچسپی نہ ہو۔،سو اس کے لئے انہوں نے کابل کا رخ کیا۔کابل جاتے ہوئے انہوں نے بد خشاں کا رخ کیا،اور وہاں پر قبضہ کیا۔کابل پر بابر کے چچا(الغ بیگ مرزا) کے ایک داماد محمد مقیم کی حکومت تھی۔بابر کی آمد کی اطلاع سن کے وہ قلعہ بند ہو گئےلیکن چند دنوں کے بعد انہوں نے ہتھیار ڈال دیے۔بابر نے اس شہر کو فتح کرنے کے بعد اسے بڑی ترقی دی۔یہاں باغات لگوائے، تعمیرات کروائیں اور نظم و نسق پر توجہ دی۔
"کابل شہر کو فتح کرنے کے بعد ظہیر الدین بابر باغات لگواتے ہوئے"
سنہ 911ھ بمطابق 1505ء میں بابر کی والدہ قتلغ نگار خانم کا انتقال ہو گیا۔اسی زمانے میں بابر نے ازبکوں کے خلاف حسین بایقرا کی مدد کی۔912ھ /1506ءمیں بابر نے قندھار کا قلعہ فتح کیا۔ پھر وہ خراسان کی مہم کے لیے تیاریاں کرنے لگے۔ ان ہی دنوں میں 913ھ/1507ء میں بابر کے بیٹے ہمایوں کی ولادت ہوئی۔ادھر شیبانی خان نے صفوی سلطنت کے بادشاہ شاہ اسمٰعیل کی سرحدوں پر چڑھائی کر دی۔اسمٰعیل صفوی نے جوابی کاروائی کی اور ہرات فتح کر لیا۔اس دوران بابر نے بدخشاں پر دوبارہ فوج کشی کی جہاں ازبک قابض ہوچکے تھے۔ بد خشاں کی فتح کے بعد بابر نے حصار،قذز اور بقلان پر قبضہ کر لیا،لیکن رمضان المبارک 916ھ/دسمبر 1510ء میں شیبانی خان مُرو کے مقام پر شاہ اسمٰعیل کی فوجوں سے لڑتے ہوئے جاں بحق ہو گئے۔
"شیبانی خان شاہ اسمٰعیل صفوی کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے ،اسی جنگ میں شیبانی خان مارے گئے تھے"
اس کے بعد بابر نے رجب 917ھ/بمطابق اکتوبر 1511ء میں سمر قندپر قبضہ کر لیا۔ اب چونکہ شاہ اسمٰعیل نے انکی مدد کی تھی تو بابر نے چاہا کہ انکی فوج کی وردی بھی شاہ اسمٰعیل کی فوج کی وردی جیسی ہو جائے۔ لیکن اس تبدیلی کو سمرقند کے امرا نے پسند نہ کیا۔بابر کو صفر 918ھ/مئی1512ء میں ازبکوں سے ایک لڑائی میں شکست بھی کھانی پڑی اور وہ کابل واپس چلے گئے۔
اسی زمانے میں برصغیر(پاک و ہند) سے خبریں آنے لگیں کہ ہند کے فرماں روا سکندر لودھی کا انتقال ہو چکا ہے۔ اور انکی جگہ ابراہیم لودھی کی حکومت قائم ہو گئی ہے،اور امرا کے درمیان آئے دن جھگڑے ہو رہے ہیں۔بابر خود بھی 922ھ/1516ءمیں چھوٹی چھو ٹی مہمات روانہ کر کے سر زمین ہندستان کے حالات معلوم کرتے رہے تھے۔بابر کو ہندستان پر حملے کی دعوت ابراہیم لودھی کے چچا عالم خان اور لاہور کے دولت خان لودھی نے دی تھی۔ کہ ابراہیم لودھی کے خلاف انکی مدد کریں۔
بابر 925ھ/1519ء سے 930ھ/1524 تک بر صغیر پرچار حملے کر چکے تھے۔پہلی بار انہوں نے925ھ/1519ء میں اٹک تک حملے کیے اور پنجاب کی سرحد پر گھکڑوں اور دیگر مخالفین کی خبر لی۔یاد رہے کہ اس طرف کے بعض علاقے خوشاب،بہیرہ وغیرہ امیر تیمور نے فتح کیے ہوئے تھے اور انہیں اپنی سلطنت میں شامل کیا ہوا تھا۔بابر نے ان علا قوں کو فتح کر کے یہاں کا نظم و نسق درست کیا۔
دوسری بار بابر نے لاہو،ملتان اور سر ہند تک پیش قدمی کی۔ایک قلعہ اور کئی ایک عمارتیں بنوائیں،لیکن کابل سے تشویش ناک خبروں کی وجہ سے بابر واپس چلے گئے۔
تیسری مرتبہ بابر 926ھ1520ء میں سر ہند کی طرف بڑھتے ہی چلے گئے،لیکن یہاں قندھار کے بگڑے ہوا نظام کی وجہ سے انہیں واپس جانا پڑا۔
چوتھی بار وہ 930ھ/1524ءمیں لاہور پر حملہ آور ہوئے اور گھکڑوں کے خلاف سخت کار وائی کی۔
بابر نے ہندستان پر پانچواں اور فیصلہ کن حملہ932ھ/1526ء میں کیا۔ بابر کے جاسوسوں نے انہیں اطلاع دی کہ ہند کے بادشاہ ابراہیم لودھی ایک لاکھ کی فوج کے ساتھ پانی پت کے میدان میں پہنچ چکے ہیں اور ان کے پاس ہاتھی بھی ہیں۔جبکہ بابر کے پاس صرف پچیس ہزار کا لشکر تھا۔لشکر کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بابر کی فوج کافی پریشان تھی لیکن بابر نے انہیں حوصلہ دیا اور ہندستان پہنچ کر اپنے بھروسے کے آدمی مقرر کر کے وہ باقی فوج کے ساتھ پانی پت چلے گئے۔
پانی پت کا میدان دہلی سے 40 کوس کے فاصلے پر دہلی اور سرہند کے درمیان واقع ہے۔9رجب 932ھ/21اپریل1526ء میں پانی پت کے میدان میں تاریخی جنگ لڑی گئی۔جس کے نتیجے میں برصغیر کا ایک نیا تاریخی باب کھل گیا۔بابر نے اپنی فوج کو حکم دیا کہ توپوں کی گاڑیاں بیلوں کو مڑور دار کھالوں کے ساتھ زنجیر کی طرح جوڑ دی جائیں۔ہر دو توپ گاڑیوں کے درمیان چھے یا سات لوہے کے توے تھے۔گولے پھینکنے والے ان تووں کے عقب میں کھڑے ہو کر گولے پھینکتے تھے۔بابر نے ان جنگی تیاریوں میں کوئی 6دن صرف کیے تھے۔اگلے دن صبح کو جنگ ہوئی اور میدان جنگ گھوڑوں کی ٹاپوں ہاتھیوں کی چنگھاڑیوں اور سپاہیوں کے نعروں سے گھونج اٹھا،خون کے فوارے اچھلنے لگے اور گردو غبار کے بادلوں نے میدان کو گھیر لیا۔توپوں کی گرج نے دلوں میں دہشت پیدا کر دی تھی۔بابر کی مختصر مگر جنگ آزما فوج کے آگے ابراہیم لودھی کا 10گناہ بڑا لشکر رُک نہ سکا۔اور دوپہر ہونے تک اس کے قدم اکھڑ گئے۔ابراہیم لودھی لڑتے ہوئے مارے گئے اور بابر کا لشکر فتح یاب ہوا۔
"پانی پت کا میدان 1526ء جس میں ظہیر الدین بابر کو فتح حاصل ہوئی اور ہندستان کی تاریخ کا ایک نیا دور شروع ہوا"
بابر نے کئی دنوں سے تھکی ہوئی فوج کو آرام نہ کرنے دیا بلکہ اپنے بیٹے ہمایوں کی قیادت میں فوج کے ایک حصے کو آگرہ فتح کرنے کے لیے روانہ کیا۔خود بابر نے دہلی کی طرف پیش قدمی کی۔12رجب 932ھ/24اپریل 1526ءکو بابر دہلی میں فاتحانہ داخل ہوئے۔ شیخ زین الدین کو جو بابر کے معتمد تھے،حکم دیا کہ ظہیرالدین بابر کے نام کا خطبہ پڑھیں۔اگلے دن بابر نے دہلی میں بزرگانِ دین کے مزاروں کی زیارت کی۔دہلی کے قلعوں اور محلوں کی سیر کی اور 10دن دہلی میں قیام کے بعد وہ آگرہ چلے گئے۔
بابر کی آگرہ آمد سے پہلے ہی ہمایوں آگرہ پر قبضہ کر چکے تھے۔ جو کہ پہلے راجہ بکرما جیت کے پاس تھا۔راجہ بکرما نے پانی پت کی جنگ میں ابراہیم لودھی کا ساتھ دیا تھا اسی لئے بابر نے اس کے خلاف فوج کشی کی۔ہمایوں کو آگرہ کے قلعے سے بہت بڑا خزانہ ملا۔اس میں آٹھ مشقال وزن کا وہ نہایت بیش قیمت الماس بھی شامل تھا،جو کہ علاالدین خلجی دکن سے لے کر آئے تھے۔
جب ظہیرالدین بابر آگرہ پہنچے تو ان کا شان دار استقبال ہوا۔ جب بابر کو آگرہ کا خزانہ پیش کیا گیا تو بابر نے حکم دیا کہ اس میں سے مکہ مکرمہ،مدینہ منورہ اور دیگر مقاماتِ مقدسہ کے علما اکرام اور بزرگوں کو حصہ روانہ کیا جائے۔اس کے علاوہ بابر نے کابل اور دیگر تمام ملکوں کےمساکئین کے لئے بھی رقوم روانہ کرنے کی ہدایت کی۔اس موقع پر بابر کی فوج گرمی کی شدت سے پریشان تھی۔ سرسام کی بیماری سے بھی فوج کو شکایت تھی لیکن بابر کی جوشیلی اور مدلل تقریریں سن کر جوانوں نے پھر کمرِ ہمت باندھ لی۔بابر کی فوج اب دریائے گنگا کی سمت بڑھتی ہوئی جونپور اور غازی پور پہنچ چکی تھی۔ادھر دہلی اور آگرہ پر بابر کے قبضے کی وجہ سے ہند کے بہت سے راجاوں کو تشویش ہو گئی۔سو اس غرض سے ہندو راجاوں نے مشرقی پنجاب کے لودھی سرداروں سے رابطہ کیا،اور سر کش میواتیوں کو اپنے ساتھ ملایا اور سب مل کر چتوڑ کے حکمران رانا سانگا کے پاس فریاد لے کر پہنچ گئے۔رانا سانگا نے تمام راجاوں اور ریاست کے حکمرانوں کو پیغامات بھجوائے اور جلد ہی تقریباً دو لاکھ راجپوت اور پٹھانوں کی فوج جمع ہو گئی۔اس فوج میں دوہزار جنگی ہاتھی اور توپ خانہ بھی شامل تھا۔
رانا سانگا کی فوج نے پیش قدمی شروع کر دی تو اس کی خبریں بابر تک پہنچنے لگیں۔ بابر کی فوج کے تجربہ کار افسران تک اس زبردست فوج کی آمد کی خبر سن کر وہ پریشان ہوئے بغیر نہ رہ سکے،لیکن بابر نے کسی پریشانی کا اظہار نہ کیا۔ وہ بہت مضبوط اعظا کے مالک تھے۔انہوں نے بیانہ کے مقام پر اپنی خصوصی چوکی قائم کر دی اور جاسوسوں کو ہدایت کر دی کہ وہ دشمن کی نقل و حرکت سے انہیں آگاہ کرتے رہیں۔
بابر نے تمام اعلیٰ افسران کا ایک اجلاس طلب کیا ،بیشتر کایہی مشورہ تھا کہ ہمیں ابھی پنجاب اور کابل کی طرف کوچ کرنا چاہیے۔بابر نے ان تمام مشوروں کو مسترد کر دیا اور نہایت ولولہ انگیز تقریر کی۔
انہوں نے کہا:
"کیا تمہارے دلوں میں سے شہادت کا جذ بہ ختم ہو گیا ہے؟یاد رکھو! اگر ہم کفار پر غالب آگئے تو ہم غازی ہوں گے ،ورنہ شہادت کا رتبہ تو ہمیں ملے گا ہی۔کیا یہ بات اس سے بہتر نہیں کہ ہمارا نام صرف بادشاہوں کی تاریخوں میں آئے اور وہ بھی"بھگوڑوں"کے لقب کے ساتھ۔ ہر فرد جو بھی اس دنیا میں آتا ہے فتا ہو جاتا ہے۔ بدنامی کی زندگی سے ناموری کی موت کتنی بہتر ہے۔"
بابر کی اس جوشیلی تقریر نے تمام افسران کی غیرت کو بیدار کر دیا۔سب نے عہد کیا کہ وہ کفار کے مقابلے میں جان دینے کے لئے تیار ہیں ۔
11جمادی الاول 933ھ/13 فروری 1527ءکو آگرہ کے قریب خانوہ کے مقام پر دونوں فوجوں کے درمیان خون ریز جنگ کا آغاز ہوا۔ یہاں دشمن کی تعداد بہت زیادہ تھی۔لیکن بابر کے جوان یہاں سر پر کفن باندھ کر لڑ رہے تھے۔رانا سانگا کی فوج کا ہر اول دستہ حسن خان میواتی کی قیادت میں ۔10ہزار سواروں پر مشتمل تھا۔اس کے ساتھ راجپوتوں کا ایک بہادر گروہ بھی تھا۔اس ہر اول دستے کے حملے سے بابر کی فوج کا ایک حصہ کمزور ہونے لگا اور قریب تھا کہ اس کے قدم اکھڑ جاتے بابر نے یہاں مرکزی فوج کے حصے کو پیش قدمی کا حکم دے دیا۔
حسن میواتی کے تیر اندازوں نے تیروں کی بارش کر دی ،لیکن بابر کے سپاہی تیروں کی پرواہ کیے بغیر آگے بڑھتے رہے۔انہوں نے سب سے پہلے رانا سانگا کے تیر اندازوں کا خاتمہ کیا۔جس کی وجہ سے دشمن کی اگلی صف میں بے ترتیبی پھیل گئی۔ بابر کی فوج نے اب دشمن کے قلب پر حملہ کردیا۔یہاں 10گھنٹے جنگ جار رہی۔ جب رانا سانگا نے دیکھا کہ اس کا لشکر ہارنے کے قریب ہے تو وہ کسی نہ کسی طرح میدان جنگ سے بھاگنے میں کامیاب ہو گیا۔جلد ہی مسلمانوں کی جانب سے تکبیر کے نعرے بلند ہونے لگے۔اس جنگ کے بعد بابر نے راجپوتوں کو مزید سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ وہ آگے بڑھے اور انہوں نے چندیری کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔چند دن کے محاصرے کے بعد بابر کا قلعے پرقبضہ ہو گیا۔لیکن راجپوتوں نے پھر حملے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں کئی ہزار راجپوت مارے گئے۔اس کے بعد بابر کو قدرے سکون کے لمحات میسر آئے اور انہوں نے آگرہ میں عمارتیں تعمیر کروائیں اور باغات لگوائے۔
"خانوہ کا میدانِ جنگ1527ء جس میں ظہیر الدین محمد بابر نے راجپوتوں کی طاقت کو کچلتے ہوئے انہیں شکست دی تھی"
کچھ عر صے کے بعد بہار میں بہلول لودھی کے پوتے سلطان محمود نے بغاوت کر دی۔اُدھر ملتان سے بھی بغاوت کی اطلاعات ملنے لگیں ، بابر نے پہلے بہار کی طرف کوچ کرنے کا حکم دیا۔شعبان 935ھ/مئی1529ء میں بابر نے اس مقام پر فتح پائی جہاں گھا گرا اور گنگا آپس میں ملتے تھے۔لیکن اس کے بعد بابر کو بنگالیوں سے چپقلش مول لینی پڑی۔بابر نے گنگا دریا کو عبور کیا اور بنگالیوں کو شکست دی۔
علامی سید سلیمان ندوی نے اپنی کتاب"سیر افغانستان"میں لکھا ہے کہ"قندھار کے باہر ایک پہاڑی پر ایک مسجد کے طاق میں بابر کے حکم سے ان تمام شہروں کے نام لکھے گئے جن کو بابر نے فتح کیا تھا ،یہ تمام نام جلی قلم سے لکھے گئے ہیں۔ان میں سہسرام،حاجی پور،پٹنہ سے لے کر لکھنو اور لاہور وغیرہ کے نام شامل ہیں۔
بابر نے اپنے سب سے بڑے بیٹے ہمایوں کو کابل میں حکمران مقرر کیا تھا،ہمایوں اپنے والد سے ملنے جب آئے تووہ بیمار پڑ گئے،انہیں زبر دست بخار چڑھ گیا،معالجوں نے ہر طرح کا علاج آزمایا لیکن انہیں کوئی آفاقہ نہ ہوا۔یہاں تک کہ معالجوں نے بلکل نا امیدی ظاہر کر دی۔ بابر کو ہمایوں بے حد عزیز تھے۔بابر سے کسی نے کہا کہ ہمایوں کی جان بچانے کے لئے صدقہ دیا جائے،اور یہ مشورہ دیا کہ اس قیمتی الماس کو صدقہ کیا جائے جو کہ علا الدین خلجی کے خزانے سے حاصل ہوا تھا۔لیکن بابر نے کہا کہ پتھر کا یہ ٹکرا میرے بیٹے کی جان سے زیادہ قیمتی نہیں ہے۔ہمایوں کے بعد مجھے میری جان زیا دہ قیمتی ہے۔ چناچہ بابر تنہائی میں چلے گئے جہاں انہوں نے رو رو کر اللہ تبارک و تعالیٰ سے اپنے بیٹے کی صحت کی دعائیں مانگیں،پھر وہ بیمار بیٹے ہمایوں کے پاس گئے اور بیٹے کی چار پائی کے گرد چکر لگا کر کہا:
"برداشتم،برداشتم،برداشتم"(میں نے اس کی بیماری اپنے سر لے لی)۔
اسی دن سے ہمایوں صحت یاب ہونے لگے اور بابر بیمار پڑ گئے۔ان کی یہی بیماری ان کے لئے سفرِ آخرت کا پیغام لے کر آئی۔6جمادی الاول938ھ/26دسمبر1530ء کو مغلیہ سلطنت کےبانی اور اولوالعزم حکمران نے اس عالم فانی کو آگرہ میں خیر باد کہا۔ انتقال سےقبل بابر نے ہمایوں کو اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا۔بابر کو آگرہ میں امانتاً دفن کیا گیا،کئی سال بعد بابر کی وصیت کے مطابق ان کی نعش کابل منتقل کر دی گئی،اور ان کی خواہش کے مطابق باغ نور افشاں میں سپردِ خاک کر دیا گیا۔اس باغ سے بابر کو بڑی محبت تھی۔ بابر کا مزار اسی باغ میں واقع ہے۔مؤرخین کے مطابق شیر شاہ سوری نے بابر کی اہلیہ" بی بی مبارکہ"کو اجازت دی تھی کہ وہ بابر کا تابوت دفن کرنے کے لئے آگرہ سے کابل لے جائیں۔
"افغانستان کے دارالحکومت کابل شہر کے مضافات میں واقع پہلے مغل بادشاہ "بابر" کا مقبرہ"
تبصرہ کریں