برطانوی راج کے خلاف اور وطن کی آزادی پر جاں نثار کرنے والے شیر دل حکمران کی داستان۔

برطانوی تسلط کےخلاف جہاد کرنے والے عظیم حکمران "ٹیپو سلطان"شہیدؒ۔

ٹیپو سلطان  نے عالم اسلام کو ہر ممکن متحد کرنے کی کوشش کی۔آپ کا اصل نام فتح علی ٹیپو سلطان ہے،آپ کے والد کا نام حیدر علی جبکہ والدہ کا نام فاطمہ تھا۔آپ کے نام حیدر علی میں  ان کے والد حیدر علی اور دادا فتح محمد  دونوں کے نام شامل ہیں۔ٹیپو سلطان 13 صفر1125ھ/21دسمبر1751ءمیں پیدا ہوئے۔

عالمِ اسلام کے اس عظیم سپوت کی پیدائش بنگلور  سے تقریباً 22 میل دور  ایک قصبے دیوان میں ہوئی۔اس مقام کا نام بعد میں ٹیپو سلطان نے یوسف آباد رکھ دیا تھا۔ٹیپو سلطان کے آبا و اجداد کے متعلق کہا جاتا ہے کہ وہ قریش النسل تھے اور 12ہویں صدی عیسوی کے اواخر میں برصغیر آئے تھے۔اس خاندان کے ایک فرد شیخ ولی محمد گلبرگہ(جنوبی ہند)آئے۔شیخ ولی کے بیٹے محمد علی تھے۔جو ٹیپو سلطان کے پردادا تھے۔محمد علی کے بیٹوں جن میں ٹیپو سلطان کے دادا فتح محمد بھی شامل تھے نے فوج میں ملازمت اختیار کی۔جب فتح محمد کا انتقال ہوا توانکے بیٹے شہباز اور محمد(ٹیپو سلطان کے والد)کمسن تھے۔

حیدر علی نے بھی بڑے ہو کر فوج کی ملازمت اختیار کی،ان کے جوہر خاص طور پر 1126ھ/1749ءمیں(28برس کی عمر میں)کھلے جب انہوں نے ایک جنگ میں غیر معمولی بہادری کا ثبوت دیا۔اس جنگ کے تقریباً 2 برس بعد ٹیپو سلطان کی پیدائش عمل میں آئی۔

حیدر علی نے اپنے بیٹے ٹیپو سلطان کی تعلیم و تربیت کا خاص انتظام کیا۔ننھے ٹیپو کو قرآن حکیم،عربی،فقہ،فارسی،فرانسیسی،انگریزی اور کنٹری(مقامی زبان)کی تعلیم دلوائی۔دینی اور دنیاوی تعلیم کے علاوہ انہوں نے فنونِ حرب میں بھی مہارت حاصل کی۔بہت جلد ٹیپو سلطان نے شہ سواری،نیزہ بازی،تیر اندازی،بندوق چلانے،بانک،بنوٹ،کُشتی اور دوبدو جنگ لڑنے کی بھی مہارت حاصل کی۔بعد میں انہوں نے فنونِ حرب میں مزید مہارت حاصل کی یہاں تک کہ انہوں نے"فتح المجاہدین" جیسی جامع کتاب لکھ ڈالی۔ٹیپو سلطان نے خطاطی کے فن پر بھی عبور حاصل کیا تھا۔علم و حکمت کے اعتبارسے بھی انکا مرتبہ بلند تھا۔ان کے کتب خانے میں ایک کتاب"رسالہ در طرز خطِ محمدی"کے نام سے ایک کتاب ملی ،جس میں خطاطی کے بارےمیں خود ٹیپو سلطان کے وضع کردہ  اصول درج تھے۔

ٹیپو سلطان نے ایسے عہد میں ہوش سنبھالا جب ہندستان میں اسلامی حکومت مسلسل خلفشار  کا شکار ہو چکی تھی۔مغل شہنشاہ اورنگزیب کی وفات کے بعد   جگہ جگہ خود مختار ریاستیں قائم ہو چکی تھیں۔اس دوران انگیز "ایسٹ انڈیا کمپنی"کے نام سے برصغیر میں اپنا جال پھیلا چکے تھے۔

سن1178ھ/1724ءمیں بنگال سے اودھ تک انگریزوں کی حکومت قائم ہو چکی تھی۔ٹیپو سلطان کے والد حیدرعلی نے انگریزوں کے خطرے کو بھانپ لیا تھا۔جو 1857ءکی جنگ آزادی کی صورت میں نمودار ہوا اور اس جنگ میں فتح کے بعد انگریز یہاں سیاہ و سفید کے مالک بن گئے۔انگریزوں کے خلاف حیدر علی نے مسلسل جہاد جاری رکھا۔

 سن1180ھ/1766ءمیں جب حیدر علی نے مالا بار پر حملہ کیا تو انہوں نے اس مہم میں ٹیپو سلطان کو بھی ساتھ جانے کا حکم دیا،اس وقت ٹیپو سلطان کی عمر صرف 15سال تھی۔حیدر علی نے بڈنور کے جنوب میں  کوہستانی علاقے بالم پر حملہ کیا۔وہاں کے حاکم کو شکست ہوئی لیکن اس نے اطاعت قبول کرنے سے انکار کر دیا اور گھنے جنگل میں جا چھپا۔ٹیپو سلطان نے 1ہزار سپاہیوں کو ساتھ لیا اور جنگل میں  بالم کے حاکم کو اس کے ساتھیوں سمیت جا لیا۔،اور انہوں نے اطاعت قبول کر لی۔حیدر علی اپنے بیٹے کی اس کامیابی سے اتنے خوش ہوئے کہ انہوں نے ٹیپو سلطان کو 200سواروں کا کماندار بنا دیا۔

انگریز حیدر علی کی بڑھتی ہوئی طاقت سے بہت خوف زدہ تھے۔انہوں نے مرہٹوں اور نظام حیدرآباد کو ساتھ ملا کر میسور کی سلطنت پر حملہ کر دیا۔یوں پہلی اینگلو میسور جنگ کا آغاز 1181ھ/1727ءمیں ہوا۔حیدر علی مرہٹوں کو اس اتحاد ثلاثہ سے الگ کرنے میں کامیاب ہو گئے۔پھر انہوں نے محرم 1181ھ/جون 1768ءمیں ٹیپو سلطان کو تحفے اور تحائیف دے کر نظام الملک حیدر آباد دکن کے پاس بھیجا۔یہاں ٹیپو سلطان نے اس قدر سلیقے سے گفتگو کی کہ نظام حیدر علی کے ساتھ مل کر انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے کے لیے راضی ہوگئے۔

ٹیپو سلطان کو مدارس کی طرف پیش قدمی کا حکم ملا،وہ وہاں مخالفین کی سر کوبی کر رہےتھے لیکن انہیں حیدر علی نے واپس بلا لیا۔جب انگریزوں نے بندرکوڑیال(بینگلور) پر قبضہ کر لیا تو انہیں انگریزوں کے خلاف روانہ کیا گیا۔پھر خود حیدر علی بھی وہاں پہنچ گئے،دونوں باپ بیٹوں نے اس شدت سے حملے کیے،کہ انگریز توپیں چھوڑ کر واپس  قلعے میں جا کر محصور ہو گئے۔ٹیپو سلطان اپنی فوج کے ساتھ قلعے کی طرف روانہ ہوئے،انگریز انکی آمد کی خبر سن کر ساحل کی طرف چلے گئے اور راستے میں بہت سے انگریز یا تو مارے گئے یا قیدی بنا لیے گئے۔

جب انگریزوں سے جنگ ختم ہوئی تو رجب 1138ھ/نومبر1769ءمیں  مرہٹوں نے میسور پر حملہ کر دیا۔حیدر علی نے ٹیپو سلطان کو حکم دیا کہ مرہٹوں کی طاقت کو کچل دیا جائے۔ٹیپو سلطان نے مرہٹہ فوج کی ناکہ بندی کر دی نہ تو ان کے گھوڑوں کو اور نہ انکی فوج کو پانی تک پہنچنے دیا۔ لیکن شوال1183ھ/فروری 1780ء میں  حیدر علی نے ٹیپو سلطان کو واپس بلا لیا۔اس دوران جنگ شروع ہو گئی۔حیدر علی ملکوٹہ میں تھے ،وہ سرنگا پٹم پہنچ گئے لیکن افرا تفری میں ٹیپو سلطان ان سے علیدہ ہو گئے۔اس دوران ٹیپو سلطان کے والد حیدر علی ان کے لیے بہت پریشان تھے۔کہ اتنے میں ٹیپو سلطان ایک مفلس سبزی فروش کے روپ میں بھیس بدل کر سرنگا پٹم  پہنچ گئے۔اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ ٹیپو سلطان موقع کی مناسبت  سے کس قدر درست فیصلہ کرنے کی صلا حیت رکھتے تھے۔مرہٹوں نے 33 دن تک سرنگا پٹم کا محاصرہ کیے رکھا،لیکن آخر رسد کی کمی کی وجہ سے انہوں نے یہ محاصرہ اُٹھا لیا۔شعبان 1186ھ/نومبر1772ءمیں مرہٹوں کے پیشوا کی وفات کے بعد  حیدر علی نے ٹیپو سلطان کو مرہٹوں کے خلاف روانہ کیا،ٹیپو سلطان نے مرہٹوں سے سیرا،مداگری،گوام کونڈا،ہوسکوٹ،بلاری وغیرہ چھین لیے۔

انگریزوں سے دوسری لڑائی 1194ھ/1780ءمیں ہوئی،جو دوسری اینگلو میسور جنگ کہلاتی ہے۔حیدر علی 80 ہزار کی فوج کے ساتھ کرناٹک پہنچ گئے اور انکے ساتھ ٹیپو سلطان بھی تھے۔انگریز سپہ سالار ہیکٹر منرو،کانجی وہم پہنچ کر کرنل بیلی کی فوج کا انتظار کرنے لگے۔ٹیپو سلطان نے کانجی سے 15میل  دور پہلے ہی کرنل بیلی کی فوج پر حملہ کر دیا۔اس حملے میں ٹیپو سلطان کے پاس 10ہزار سپاہی تھے۔کانجی ورم سے نو میل دور ٹیپو سلطان نے اس قدر گولہ باری کی کہ انگریز وں نے ہتھیار ڈال دیے۔4ہزار یورپی سپاہیوں سے صرف 200 سپاہی زندہ بچے جنہیں قیدی بنا لیا گیا۔انگریزوں نے اس کا اعتراف کیا کہ یہ ان پر ہندستان میں لگنے والی یہ شدید ترین ضرب تھی۔ٹیپو سلطان نے انگریز قیدیوں سے بڑا نرم سلوک کیا ،انہیں نئے کپڑے اور پیسے دیے اور پھر انہیں سرنگا پٹم بھیج دیا۔اس دوران انگریز کمانڈر ہیکٹر منرو نے مایوس ہو کر واپس مدارس کا رخ کیا۔ بھاری توپیں اور گولہ بارود لے جانا مشکل تھا ،چناچہ انگریز یہ سامان ایک بڑے تالاب میں پھینک گئے۔

اس کے بعد ٹیپو سلطان نے ارکاٹ،ست گڑھ،تیاگ گڑگ فتح کیے۔اس دوران ٹیپو سلطان کو مغربی محاز پر مالا بار میں فتح کی خبریں موصول ہوئیں ۔ٹیپو سلطان کو اس محاز پر بھیج دیا گیا۔ٹیپو سلطان انگریزوں پر دن بگر گولہ باری کرتے رہے،یہاں تک کہ وہ دریائے پونامی تک پہنچ گئے۔انگریز دریا عبور کرنےمیں کامیاب ہو گئے۔ٹیپو سلطان نے بھی دریا عبور کیا اور شہر پونامی کی ناکہ بندی کر دی۔لیکن اسی دوران ٹیپو سلطان کو اپنے والد حیدر علی کی وفات کی اندوہناک خبر ملی۔30 ذی الحجہ1196ھ بمطابق6دسمبر 1786ء کو حیدر علی کا انتقال ہوا تھا۔ٹیپو سلطان وفات کی خبرملتے ہی خاموشی کے ساتھ چکملور پہنچ گئے۔ جہاں حیدر علی کا لشکر ٹھہرا ہوا تھا۔ٹیپو سلطان نے خود حکم دیا تھا کہ انکا رسمی استقبال نہ کیا جائے۔20 محرم الحرام 1197ھ بمطابق26دسمبر 1786ء کو ٹیپو سلطان کی مسند نشینی عمل میں آئی۔اب وہ اس وسیع سلطنت کے مالک تھے جسے انکے والد نے بڑے تدبر،اور حوصلے کے ساتھ حاصل کیا تھا۔

ٹیپو سلطان نے اقتدار سنبھالتے ہی حکم دیا کہ فوجیوں کی تنخواہیں اور وجوابات ادا کیے جائیں،انہیں ابھی اس بات کا خوب احساس تھا کہ ابھی انہیں بہت سے دشمنوں سے جنگ لڑنی ہے۔اور اس کے لیے انہیں ایک مظبوط فوج کی ضرورت ہے۔اس کے لیے انہوں نے ایک فرانسیسی افسر کو حکم دیا کہ جلد از جلد انکی فوج کو  جدید خطوط پر  منظم کیا جائے۔ٹیپو سلطان نے ایک اور اہم فیصلہ یہ کیا کہ انہوں نے  اشیا کی قیمتیں از خود  مقرر کرنے کا پرانا دستور منسوخ کر دیا۔اس سے یہ فائدہ ہوا کہ فوج کی رسد میں کافی اضا فہ ہو گیا۔

مشرقی محاز پر جب انگریزوں نے حملہ کیا تو ٹیپو سلطان خود فوج لے کر روانہ ہوئے اور انہوں نے انگریزوں کو ونڈی واش اور  کرنگولی کے مقام پر شکست دی۔انگریزوں نے تیاری کر کے بڈنور کے قلعے پر قبضہ کر لیا۔شعبان 1197ھ بمطابق جولائی 1783ءمیں ٹیپو سلطان ایک بڑی فوج کے ساتھ آندھی اور طوفان کی طرح بڈنور کی سرحد پر جا پہنچے۔انہوں نے حیدر گڑھ  اور کیول درگ پر قبضہ کر لیا۔پھر انہوں نے بڈنور شہر پر تسلط قائم کر کے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔ٹیپو سلطان نے 13 مقامات پر توپیں نصب کر دیں اور گولہ باری شروع کر دی اور چند ہی دنوں میں انگریز فوج نے ہتھیار ڈال دیے۔

انگریزوں نے ایک معاہدہ کر کے قلعہ چھوڑنا چاہا لیکن پھر انہوں نے خود اس معاہدے کی خلاف ورزی کر دی۔جس پر ٹیپو سلطان کی فوج نے انگریزوں کو گھیر کر مارنا شروع کر دیا۔آخر انگریزوں نے پھر رحم کی اپیل کی۔لیکن انہوں نے ہوشیاری یہ کی کہ قلعے میں جتنا سونا تھا وہ بھیڑ بکڑیوں کے جسموں یہاں  تک کہ کتوں کے جسموں  میں بھی چھپا کر لے جانے کی کوشش کی۔ٹیپو سلطان کو انکی اس کارستانی کی خبر مل گئی انہوں نے انگریزوں کی تلاشی لی تو انہیں 40 ہزار پگوڈے(سونے کے سکے) صرف افسروں سے ملے۔ٹیپو سلطان نے انہیں ہھتکڑیاں لگا کر  چیتل درگ بھیج دیا۔

بڈنور سے ٹیپو سلطان بنگلور پہنچے ،وہاں انگریزوں نے خود کو قلعے میں محصور کر لیا،قریب تھا کہ یہ قلعہ بھی فتح ہو جاتا۔انگریزوں اور فرانسیسیوں میں صلح ہو گئی۔چناچہ فرانسیسی فوج ٹیپو سلطان کی مدد سے پیچھے ہٹ گئی۔18ربیع الثانی1198ھ بمطابق11مارچ 1784ءکو ٹیپو سلطان اور انگریزوں کے درمیان ایک معاہدہ ہوا۔ایک انگریز افسر لارڈ میکارٹی نے خود اس بات کا اعتراف کیا کہ اگر یہ معاہدہ نہ ہوتا تو ہم خود اس مصارف کے بوجھ تلے ڈوب جاتے۔اس معاہدے کے تحت فریقین نے مفتوحہ علاقے واپس کر دیے۔

ادھر انگریزوں نے جنگ ختم ہوئی تو اُدھر مرہٹوں کے مزہبی پیشوا نانا فرنویس نے میسور پر حملہ کر دیا اور نظام  کو بھی اپنے ساتھ ملانے کی کوشش کی۔ٹیپو سلطان نے نانا فرنویس کو بہت سمجھایا کہ ہمیں مل کر انگریزوں کو ہندستان سے نکالنا ہے لیکن  نانا فرنویس نہ مانے ان کے ساتھ نظام  حیدر آباد بھی مرہٹوں کے ساتھ مل گیا۔مجبور ہو کر ٹیپو سلطان کو  ان کے خلاف فوج نکالنا پڑی۔ چند جنگوں کے بعد  جمادی الاول 1201ھ بمطابق فروری 1787ءمیں صلح نامے پر دستخط ہوئے۔

ٹیپو سلطان نے اس دوران مغل بادشاہ کا نام خطبے سے ختم کر کے اپنا نام شامل کیا ،اور نیا روپیہ جاری کیا جسے "امامی" کہتے تھے۔ٹیپو سلطان نے سنہ ہجری کی جگہ سنہ محمدیﷺ رائج کیا۔یہ نبی پاک ﷺ کی ولادت کے سال سے شروع ہوتا  تھا۔ٹیپو سلطان کے حکم پر قلعوں اور شہروں سے تین تین میل دور خاردار تاریں نصب کیں۔

ٹیپو سلطان نے 1198ھ بمطابق 1784ءمیں عثمانی خلیفہ سے اپنی حکمرانی کی توثیق حاصل کی اور قسطنطنیہ میں اپنا سفارت خانہ قائم کیا۔اس غرض سے ٹیپو سلطان نے جو وفد قسطنطنیہ روانہ کیا ان کے پاس  بہترین لباس ،مصالے،سونے چاندی کے میسوری سکے،ہاتھی،صندل کی مصنوعات اور جواہرات شامل تھے۔گویا ٹیپو سلطان نے اس سفر سے ہر ممکن مقاصد حاصل کرنے کی کوشش کی۔وفد کے اراکین کو ٹیپو سلطان نے خاص ہدایت کی کہ وہ خلیج فارس  سے گزرتے ہوئے بو شہر میں اتریں اور شاہِ فارس سے تجارتی مراعات حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اس کے علاوہ وہ جن مقامات سے گزریں وہاں کی تمام معلومات قلم بند کریں۔ٹیپو سلطان نے انہیں یہ بھی ہدایت کی کہ  عثمانی حکومت سے ترکی مقبوضات میں کارخانوں  کا قیام کا معاہدہ کرنے کی کوشش کریں،اور عثمانی حکومت سے معاہدہ کریں کہ  عثمانی حکومت ٹیپو سلطان کی مدد کے لیے فوج بھیجے۔ایسے صنعت کار بھی بھیجیں جو بندوقیں اور توپیں ڈھال سکیں،بدلے میں ٹیپو سلطان ایسے کاریگر بھیجے گا جسکی عثمانی سلطنت کو ضرورت ہو گی۔تاہم وفد یہی اسناد حاصل کر سکا کہ  عثمانی حکومت نے ٹیپو سلطان کو خود مختار بادشاہ تسلیم کر لیا اور انہیں اپنے سکے  جاری کرنے اور اپنے نام کا خطبہ پڑھوانے کا حق دیا۔

ادھر انگریز بڑی شدت سے محسوس کر رہے تھے برصغیر پر قبضے میں اگر کوئی رکاوٹ ہے تو وہ ٹیپو سلطان ہے۔چناچہ انگریزوں نے مرہٹوں اور نظام حیدر آباد کے ساتھ ٹیپو سلطان کے خلاف اتحاد قائم کر لیا۔ٹیپو سلطان  اور اتحادیوں کی جنگ کے تین  دور ہوئے۔آخر جمادی الثانی 1206ھ بمطابق فروری 1792 میں سرنگا پٹم کا محاصرہ کر لیا گیا  اور صلح نامے پر دستخط ہوئے۔اس صلح نامے کے تحت ٹیپو سلطان کو اپنی نصف سلطنت سے  دستبردار ہونا پڑا۔یوں اُن جنگوں کا اختتام ہوا جو 10 رمضان المبارک 1204ھ بمطابق 24مئی 1790ء میں شروع ہوئیں تھیں۔ٹیپو سلطان کو 3 کڑور 30 لاکھ کا تاوان ادا کرنا پڑا۔اس کے علاوہ جنگی قیدی رہا کرنے پڑے۔معاہدے کی ضمانت کے طور پر ٹیپو سلطان کے دو کمسن بیٹوں عبد الخالق معز الدین کو یرغمال  بنایا گیا۔جب دونوں شہزادے پورے سرکاری اعزاز کے ساتھ  انگریز سالار  کارنوالس کے کیمپ میں پہنچے تو انگیز سالار نے انہیں گلے لگا لیا اور انہیں21 توپوں کی سلامی دی۔

ٹیپو سلطان کی شکست ان کی  ریاست پرانگریزوں ،مرہٹوں اور نظام کی بڑی کاری ضرب تھی۔تاہم ٹیپو سلطان نے معاہدے کی پابندی کی اور پوری رقم وقت پر اتحادیوں کو بھیج دی۔لیکن اس کے باوجود شہزادے واپس نہ آئے اور انہیں کلکتہ بھیج دیا گیا۔

ٹیپو سلطان کی جگہ کوئی اور ہوتا تو باقی نصف سلطنت بھی گنوا بیٹھتا لیکن انہوں نے صبر سے کام لیا اور  نقصان کی تلافی میں لگ گئے۔یہ انکی کمال ذہانت کا نتیجہ تھا کہ انہوں نے صرف 6سال کے عرصے میں اپنی سلطنت کو خوشحال بنا دیا۔ٹیپو سلطان نے  اسلامی اتحاد پر زور دیا اس کے لیے انہوں نے زمان شاہ والیِ کابل، سلطانِ روم، شاہ ایران اور خود برصغیر کے تمام مسلمان حکمرانوں کے پاس سفیر بھیجے۔

لارڈ ویلزلی1212ھ بمطابق 1798ء میں گورنر جنرل بن کے ہندستان آئے،انہیں ٹیپو سلطان کے اتنے کم عرصے میں  ترقی پر تشویش لاحق ہوئی،لیکن اصل تشویش انہیں ٹیپو سلطان سے اس وجہ سے بھی تھی کہ  فرانسیسی سالار نیپولین بونا پارٹ مصر فتح کر چکا تھا اور وہ بات جس نے انگریزوں کو خوفزدہ کیا ہوا تھاکہ نپولین نے چند خطوط ٹیپو سلطان کو لکھے تھے جو بد قسمتی سے انگریزوں کے ہاتھ لگ گئے تھے۔ان میں سے ایک خط نپولین نے 19شعبان1213ھ بمطابق26جنوری1799ء کو قاہرہ سے ٹیپو سلطان کو بھیجا تھا،اس خط میں نپولین نے لکھاکہ

                                                                                                                                                                                                 " بنام جلیل القدر سلطان ہمارے عزیز ترین دوست

                                                                                                                                                                                                      ٹیپو صاحب۔ایک لاتعداد اور ناقابلِ شکست فوج کے

                                                                                                                                                                                                  ساتھ آپ کو انگلستان کے اہنی پنجوں سے آزاد کروانے

                                                                                                                                                                                                  کی خواہش کے ساتھ بحیرہ احمر کے کنارےآیا ہوں میں

                                                                                                                                                                                                   یہ معلوم کرنا چاہتا ہوں کہ آپکا سیاسی موقف کیا ہے؟

                                                                                                                       میں چاہتا ہوں کہ آپ اپنے کسی قابلِ اعتماد ساتھی کو جلد از جلد سویز روانہ کریں  ،جس سے میں گفتگو کر سکوں۔"

لارڈ ویلزلی نے آتے ہی جنگی تیاریاں شروع کر دیں اور مرہٹوں اور نظام کے ساتھ اتحاد  قائم کرنے کی کو ششیں کرنے لگا۔دوسری جانب انہوں نے ٹیپو سلطان کو ہر طرح کی مدد سے محروم کرنے کی کوشش بھی کی۔انہوں نے عوام کو باور کروایا کہ انگریز اسلام پسند ہیں ،انگریزوں نے ان غیر اسلامی رسومات کو بڑی اہمیت دی جنہیں ٹیپو سلطان نے ختم کر دیا تھا۔دوسری جانب انگریزوں  نے چند درباری امرا کو اپنے ساتھ ملا لیا۔ان درباریوں میں سرِ فہرست میر صادق تھا جو  مجلس کا صدرِ اعظم تھا۔ دیگر با غیوں میں میر غلام علی،میر قمر الدین،میر قاسم علی،بدر الزمان،اور ہندو وزیرِ مالیات دویوان،پورنیا شامل تھے۔

لارڈ ویلزلی نے آتے ہی نیا معاہدہ کرنا چاہا جس کی شرائط نہایت توہین آمیز تھیں۔ویلزلی نے 27 شعبان1213ھ بمطابق 3 فروری 1799ءکو جنرل ہیرس کو حکم دیا کہ وہ ٹیپو سلطان سے مذاکرات ختم کر کے میسور پر حملہ کر دے۔انہوں نے الزام لگایا کہ ٹیپو سلطان فرانسیسیوں سے مل کر ہندستان میں انگریزوں پر حملہ کرنا چاہتا ہے،اس نے وضاحت کے لیے ٹیپو سلطان کو صرف 24 گھنٹوں کا وقت دیا،اور جواب کا انتطار کیے بغیر حملہ کر دیا۔اس سے قبل وہ ٹیپو سلطان سے دوستانہ ماحول میں بات چیت کرتے رہے،یہ ان کی چال تھی کیوں کہ اس دوران وہ جنگی تیاریاں کر رہے تھے۔

جنرل ہیرس کی قیادت میں 21 ہزار کی فوج 9 رمضان المبارک 1213ھ بمطابق14فروری1799ءکو میسور کی جانب روانہ ہوئی۔28 رمضان /5 مارچ کو انگریز فوج  میسور میں داخل ہوئی  اور 7شوال 13 مارچ کو بنگلور پر قبضہ کر لیا۔ٹیپو سلطان نے انگریزوں کی اس پیش قدمی  کے پیشِ نظر اپنی تیاریاں مکمل کر لیں تھیں۔وہ پورنیا اور سید غفار کی قیادت میں چند دستے چھوڑ کر مشرق کی طرف روانہ ہوئے۔انگریزوں کی فوج میں جانوروں کی کثرت تھی۔انکی فوج میں 20 ہزار بیل،نظام کی فوج میں 36ہزار جبکہ نجی  افراد کے بیلوں کی تعداد اس سے الگ تھی۔نتیجہ یہ ہوا کہ  چارے کی کمی کی وجہ سے بیل مرنے لگے۔ٹیپو سلطان کی فوج دشمن کی اس کمزوری سے فائدہ اُٹھا سکتی تھی،لیکن ٹیپو سلطان کے اعلیٰ افسر انگریز فوج سے  ملے ہوئے تھے اسی لیے انہوں نے ان سے کوئی تعرض نہ کیا۔

جنرل ہیرس نے 17 ذی قعدہ1213ھ بمطابق 22 اپریل1799ء کو دوسرا مسؤدہ مصالحت ٹیپو سلطان کے سامنے پیش کیا۔ اس کی شرائط  پہلے سے بھی ذیادہ سخت تھیں۔یعنی کہ باقی نصف سلطنت بھی ہمارے حوالے کی جائے ،4کڑور تاوان اور 4بیٹوں ،اور 2 جرنیلوں کو یرغمال کے طور پر  دیے جائیں۔ٹیپو سلطان نے ان شرائط کو ماننے سے انکار کر دیا۔

اور پھر23 ذی قعدہ 1213ھ بمطابق28اپریل1799ء کو سرنگا پٹم کے باہر توپیں نصب کر دیں گئیں،اور گولہ باری شروع ہو گئی۔3 مئی کو قلعے کی فصیل میں چھوٹا سا شگاف پڑ گیا۔ جنرل ہیرس نے فوراً حملے کا حکم دیا کیونکہ انکی فوج رسد کی کمی کی وجہ سے فاقے کر رہی تھی،اور مزید انتظار نہیں کر سکتی تھی۔ایسے موقع پر غدارانِ ملت انگریزوں کے کام آئے۔میر صادق نے صلاح دی کہ 4مئی کو دپہر کے وقت حملہ کیا جائے۔حملے کے وقت میر صادق نے شگاف  کی حفاظت  پر موجود سپاہیوں کو تنخواہ کے بہانے بلا لیا۔جس کے بعد انگریز بڑی آسانی کے ساتھ قلعے میں داخل ہو گئے۔

ٹیپو سلطان دفاعی انتظامات میں بری طرح مصروف تھے۔29 ذی قعد 1213ھ بمطابق4مئی 1799ء کو دپہر کا کھانا ان کے سامنے لایا گیا۔ابھی ایک لقمہ اٹھایا ہی تھا کہ انہیں اپنے وفادار افسر سید غفار کی شہادت کی اطلاع ملی۔ٹیپو سلطان کھانا چھوڑ کر کھڑے ہوئے اور کہا

"کہ ہم بھی عنقریب جانے والے ہیں"

ٹیپو سلطان نے اپنی فوج کو جمع کرنے کی کوشش کی لیکن سپاہی  منتشر ہو گئے،اسی اثنا میں ٹیپو سلطان گھوڑے پر بیٹھے اور ڈڈی دروازے(پانی کے دروازے)کی طرف بڑھے۔لیکن اس دروازے کو میر صادق نے بند کروا دیا تھا تاکہ ٹیپو سلطان یہاں سے باہر نہ جا سکیں۔میر صادق یہ کہتے ہوئے نکلا کہ میں کُمک لاتا ہوں ،لیکن اسی دوران ٹیپو سلطان کے ایک رفیق نے میر صادق کی غداری کو بھانپتے ہوئے اسے قتل کر دیا۔

ٹیپو سلطان اس دروازے کی طرف بڑھے  جہاں سے قلعے کے اندرونی حصے کو راستہ جاتا تھا۔اس دروازے سے گزرنے کی کوشش میں ٹیپو سلطان 3بار زخمی ہوئے،یہاں تک کہ انکا گھوڑا دم توڑ گیا۔اتنے میں چند انگریز سپاہی ادھر کو آئے،ان میں سے ایک نے ٹیپو سلطان کی  تلوار کی پیش قیمتی پٹی چھیننے کی کوشش کی ،زخمی سلطان نے تلوار کے ایک وار سے اس کا کام تمام کر دیا۔سلطان ایک تنگ گلی میں لڑ رہے تھے۔اچانک ایک گولی ٹیپو سلطان کے کنپٹی میں آ لگی اور میسور کا شیر وفات پا گیا۔عینی شاہدین کے مطابق ٹیپو سلطان کے چہرے پر غیر معمولی طمانیت تھی،اور کسی قسم کے جزباتی ہیجان یا غضب  کا تاثر نہ تھا۔دوسرے دن سہ پہر کو محل سے  ٹیپو سلطان کا جنازہ اُٹھایا گیا۔4یورپین کمپنیاں ساتھ ساتھ تھیں۔جنازے کا جلوس جس جگہ سے بھی گزرتا دونوں جنب ہجوم  کا سمندر تھا،اور لوگ دہاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔لال باغ کے مقبرے میں ٹیپو سلطان کو ان کے والد حیدر علی کے پہلو میں سپردِ خاک کیا گیا۔

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

انگریزوں کے خلاف اور ہندستان کی آزادی پر جاں نثار کرنے والے عظیم حکمران ٹیپو سلطان شہید۔

ٹیپو سلطان کا پورا نام فتح علی ٹیپو سلطان ہے۔ ان کے والد کا نام حیدر علی اور والدہ کا نام فخر النساء ( فاطمہ) ہے۔ ٹیپو سلطان کے نام ”فتح کی علی" میں ان کے والد حیدر علی اور…

مزید پڑھیں
سلجوقی سلطنت کے قیام اور زوال کی مکمل داستان

سلجوقی سلطنت کو عالم اسلام کی چند عظیم سلطنتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سلجوقی سلطنت کا قیام "گیارہویں" صدی عیسوی میں ہوا۔ سلجوق در اصل نسلاََ    اُغوز ترک تھے۔اس عظیم سلطنت کا قیام"طغرل بے"اور"چغری…

مزید پڑھیں
سپین میں مسلمانوں کا 800 سالہ دور حکومت

جزیرہ نما آیبیریا   جو کہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مغربی رومی سلطنت کے ختم ہو جانے کے بعدیہاں پر مکمل طور "گاتھک" خاندان کی حکومت قایم ہو گی۔لیکن انکی یہ حکومت زیادہ عرصہ…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں

waleed ahmed

brother agar apko historical animations ki zaroorat ho to plz email kejiye ga meri videos high quality or free hoti hen lekin me credit zaroor leta hun