برصغیر کے پہلے مسلمان حکمران
سلطان قطب الدین ایبک جو ایک غلام تھے لیکن وقت نے انہیں غلامی سے نکال کر برصغیر کا پہلا مسلمان فرمانروا بنا دیا ۔
سلطان قطب الدین ایبک غلامی کی زندگی بسر کر رہے تھے کہ انہیں قاضی "فخر الدین بن عبد العزیز کوفی"نے انہیں خرید لیا اور انکی پرورش اپنی اولاد کی طرح کی۔انہوں نے بہت جلد قرآن پاک حفظ کر لیا،اور عربی اور فارسی پر عبور حاصل کر لیا۔قرآن پاک سے انہیں اس قدر محبت تھی کہ وہ لوگوں میں "قرآن خواں" کے نام سے مشہور ہو گئے تھے۔اس کے علاوہ قطب الدین نے گھڑ سواری،تیر اندازی اور دیگر جنگی فنون بھی سیکھے۔قاضی فخر الدین کی وفات کے بعد قطب الدین کو ایک بار پھر آزمائش سے دوچار ہونا پڑا۔صاحبِ علم ہونے کے باوجود انکا شمار اب بھی غلاموں میں ہوتا تھا،اور یوں ایک بار پھر انہیں غلام بنا کر سوداگر کے ہاتھ فروخت کر دیا گیا۔خریدار سوداگرنے اور غلام ساتھ لیے اور غور کے علاقے میں جا پہنچا جو کہ افغانستان میں شامل ہے۔ وہاں سلطان شہاب الدین غوری کی حکمرانی تھی۔سلطان شہاب الدین غوری نے بہت سے غلام خریدے،قطب الدین ایبک کا رنگ و روپ تو متاثر کرنے والا نہیں تھا۔لیکن علم کا جو نور انکے پاس تھا وہ انہیں دیگر غلاموں میں ممتاز کر رہا تھا۔سلطان شہاب الدین غوری نے ایک بڑی رقم کے عوض انہیں خرید لیا اور یوں انکی زندگی کا ایک تیسرا دور شروع ہوا۔
سلطان قطب الدین ایبک"ایبک"کیوں کہلاتے تھے؟
اس بارے میں مؤرخین کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے۔کچھ مؤرخین کا کہنا ہے کہ،قطب الدین ایبک کے ہاتھ کی چھوٹی انگلی ٹوٹی ہوئی تھی۔اس لیے لوگ انہیں "ایبک شل"کہنے لگے۔ایبک تُرکی ابان میں انگلی کو کہتے ہیں ۔جبکہ شل سے مراد"سوکھا ہوا"کمزور ہے یعنی کہ وہ شخص جس کی انگلی کمزور ہو۔بعض دیگر تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ "ایبک"دراصل ایک ترک قبیلے کا نام ہے۔یہ مرکب لفظ ہے یعنی کہ"اے"اور"بک"کا مجموعہ ہے۔"اے"ترکی زبان میں چاند کو کہا جاتا ہے،جبکہ "بک" سے مراد خان یا سردار ہے۔اس دور کے کئی ایک تُرک امیروں کے نام کے آخر میں ایبک آتا تھا مثلاًبہاالدین ایبک,جبکہ ترکستان میں یہ لفظ آج بھی استعمال ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی ذات نے قطب الدین ایبک کو جو صلاحیتیں عطا کی تھیں،وہ زیادہ دیر پوشیدہ نہ رہ سکیں۔ایک بار سلطان شہاب الدین نے ایک جشن کے موقع پر اپنے غلاموں کو انعامات سے نوازا۔ قطب الدین کو بھی انکے حصے کی رقم ملی لیکن انہوں نے اسی وقت وہ رقم اللہ کی راہ میں تقسیم کر دی۔جلد انکی یہ سخاوات سلطان شہاب الدین غوری تک جا پہنچی۔سلطان شہاب الدین غوری انکی سخاوت سے بے حد متاثر ہوئے۔انہوں نے قطب الدین ایبک کو اپنے دربار میں خصوصی جگہ دی۔کچھ عرصے کے بعد انہیں مطبخ کا نگران،اور پھر اصطبل کا نگران بنا دیا گیا،اور جلد انہوں نے فوج میں بھی اپنا مقام بنا لیا۔قطب الدین ایبک نے سلطان شہاب الدین غوری کے خلاف انکے دشمنوں سے جس بے خوفی اور بہادری سے جنگیں لڑیں وہ بے مثال تھیں۔ان کی اعلیٰ صلاحیتوں اور بہادری کو دیکھتے ہوئے سلطان شہاب الدین غوری نے انہیں اپنی فوج کے ہر اول دستے کا سالار بنا دیا۔
شہاب الدین غوری کا کوئی بیٹا نہ تھا ،ایک بار دربار میں کسی نے سلطان سے اس بات کا افسوس کیا تو سلطان نے بے پروائی سے کہا کہ" باقی حکمرانوں کے ایک یا دو بیٹے ہوں گے ،لیکن میرے ہزاروں بیٹے ہیں جو میرے بعد میری سلطنت کے وارث ہوں گے"۔سلطان شہاب الدین غوری کا اشارہ اپنے ہزاروں غلاموں کی جانب تھا۔یہ اسلام ہی کی برکت ہے کہ اس نے غلاموں کے ساتھ رکھا جانے والا ظالمانہ سلوک ختم کیا،اور غلاموں کو اتنی عزت دی کہ وہ ہزاروں میل تک پھیلی ہوئی سلطنت کے بادشاہ بنے۔سلطان شہاب الدین غوری کہ بات سچ ثابت ہوئی اور انکی وفات کے بعد ان کے غلاموں نے سندھ اور گجرات سے بنگال اور آسام تک،اسلام کا پرچم لہرایا،اور ایک وسیع علاقے پر حکومت کی،اور خاندانِ غلاماں کے نام سے تاریخ کا ایک درخشندہ باب رقم کیا۔
سلطان شہاب الدین غوری نے جب غزنی میں اپنا اقتدار مستحکم کیا ،تو انہوں نے دیکھ لیا کہ سندھ کے علاقے میں بے دین عناصر نے بہت تباہی مچا رکھی ہے۔جن کے اثرات خود "غور"تک محسوس کیے جاتے تھے۔سلطان شہاب الدین نے ان بے دین عناصر کے خلاف جہاد کرنا ضروری سمجھا۔آپ نے 871ھ/1175ءمیں انہوں نے ہندستان پر پہلا حملہ کیا اور اُچ اور ملتان پر قبضہ کر لیا۔875ھ/1189ءمیں پشاور فتح کیا اور اس سے اگلے سال میں پورے سندھ پر سلطان شہاب الدین غوری کا قبضہ ہو گیا تھا۔
شہاب الدین غوری نے587ھ/1192ءمیں بھٹنڈہ پر قبضہ کر لیا۔588ھ/1192ء میں انہوں نے اجمیر،کہرام اور سمانہ کے علاقے فتح کیے۔ان تمام جنگوں میں سلطان قطب الدین ایبک بھی شامل تھے۔ان فتوحات کے بعد سلطان شہاب الدین نے قطب الدین ایبک کو کہرام کا حاکم بنایا اور ہندستان میں اپنی فوج کا سپہ سالار بنایا اور وہ خود واپس غزنی چلے گئے۔
قطب الدین ایبک نہایت اعلیٰ سالار ثابت ہوئے۔انہوں نے اسی سال دہلی پر حملہ کیا اور اسے پرتھوی راج اور کھانڈے رائے کے رشتے داروں سے چھین لیا۔کچھ ہی عرصے کے بعد دہلی کی سڑکوں پر اسلامی فوج پیش قدمی کرنے لگی۔589ھ/1193ءمیں قطب الدین ایبک قلعہ قول(علی گڑھ)فتح کر چکے تھے۔اس کے بعد انہوں نے دہلی کو دارالحکومت بنا کر اسلامی قوانین نافذ کر دیے۔
سلطان شہاب الدین590ھ/1190ء میں پھر ہندستان تشریف لائے۔انہوں نے قنوج کا راستہ اختیار کیاتھا۔ قنوج اور بنارس کا راجہ جے چند بڑی فوج لے کر آیا۔اس فوج میں 3ہزار ہاتھی بھی تھے۔قطب الدین 50ہزار کی فوج لےکر سلطان شہاب الدین کی مدد کو پہنچے۔سلطان نے اپنے لائق سالار کا ماتھا چوما اور ہر اول دستے کے طور پر انہیں روانہ کیا۔راجہ جے چند نے بدایوں ،اودھ اور بہار کے راجاؤں سے فوج اکھٹی کر لی تھی۔اٹاوہ سے شمال میں جند واڑہ کے مقام پر جے چند کی فوج جمع ہو گئی۔قطب الدین نے تیزی سے پیش قدمی کی اور سلطان شہاب الدین غوری کے مرکزی لشکر کے پہنچنے سے پہلے کہ ہندو راجہ پر حملہ کر دیا ،اور اس لڑائی میں ہندو فوج کے قدم اُکھڑ گئے۔قطب الدین ایبک ایک ماہر تیر انداز تھے۔آپ نے راجہ جے چند کا نشانہ لے کر جو تیر چلایا تھا ،وہ سیدھا جا کر راجہ کی آنکھ میں پیوست ہو گیا۔راجہ الٹ کر ہاتھی سے گر پڑا۔اس کے گرتے ہی فوج میں افراتفری پھیل گئی اور ہندو بھاگنے لگے۔ہندو فوج کے ہاتھی ،باختہ ہو کر اپنے ہی سپاہیوں کو کچلنے لگے۔جنگ کے بعد جے چند کی لاش کو ڈھونڈا گیا۔اس کی شناخت اس طرح کی گئی کہ اس کے دانت سونے کی کیلوں اور تاروں سے بندھے ہوئے تھے۔اس جنگ میں فتح کے بعد مسلمانوں کو مالِ غنیمت میں 300ہاتھی ملے۔ان میں سے ایک سفید ہاتھی بہت خوبصورت تھا۔قطب الدین نے یہ ہاتھی سلطان شہاب الدین غوری کی خدمت میں پیش کیا۔سلطان نے وہ ہاتھی قطب الدین کو تحفے میں دے دیا ،اور وہ ہاتھی سلطان قطب الدین ایبک کے پاس ہی رہا ،اور انکی وفات کے چند روز کے بعد چل بسا۔
شہاب الدین غوری نے راجاجے چند کی اس شکست کا پورا فائدہ اٹھاتے ہوئے قنوج، بنارس اور پھر گوالیار اور بدایوں کے علاقے فتح کر لیے۔یوں شمالی ہند کا ایک بڑا علاقہ مسلمانوں کے قبضے میں آ گیا۔593ھ/1193ءمیں قطب الدین نے گجرات پر کامیاب حملہ کیا اور انہلوارہ(مغربی راجپوتانہ)پر بھی 593ھ میں فتح حاصل ہوئی۔اس کے بعد سلطان نے کالنجر اور رنتھمبور کے مشہور قلعے فتح کیے۔پھر کالپی کو بھی اپنی سلطنت میں شامل کر لیا اسی دوران قطب الدین کے ایک لائق ماتحت نے بختیار الدین خلجی نے بہار اور بنگال کو فتح کر لیا۔اس فتح کے بعد آسام کے راجہ نے اطاعت قبول کر لی۔مسلمانوں اس دوران تبلیغ کا کام کرتے رہے،ان کی اس کوشش سے دو قوموں کوچ اور میچ کے سردار مسلمان ہو گئے۔
ساتویں صدی ہجری کے اوائل میں سلطان شہاب الدین غوری کو خبر ملی کہ دریائے سندھ سے کوہ سوالک میں کھوکھر قوم نے بڑی شورش برپا کر رکھی ہے۔کھوکھروں کی وجہ سے پشاور اور نواح کے مسلمانوں کا جینا محال ہو گیا تھا۔سلطان شہاب الدین غوری نے فوج جمع کی اور قطب الدین ایبک اور ایک اور غلام شمس الدین التمش کی مدد سے کھوکھروں پر حملہ کر دیا۔یہ جنگ جاری ہی تھی کہ کھوکھروں نے ایک مسلمان کو قیدی بنا لیا،اور اس مسلمان قیدی سے وہ بے حد متاثر ہوئے اور کھوکھروں کا سردار اسلام لے آیا۔کہا جاتا ہے کہ 4لاکھ کھوکھر مسلمان ہوئے تھے۔
سلطان شہاب الدین غوری 602ھ/1206ءمیں لاہور آئے ۔انہوں نے ایک تقریب کا اہتمام کیا،جس میں انہوں نے قطب الدین ایبک کو "ملکِ" کا خطاب دیا یہ خطاب صرف شاہی خاندان کے افراد کو ہی دیا جاتا تھا۔تقریب سے واپسی پر جہلم کے ایک نواح میں "دَمیک"کے مقام پر انہیں ایک فرقے نے شہید کر دیا۔اس کے بعد غزنی کی حکومت محمود بن غیاث الدین کے ہاتھ میں آئی اور انہوں نے قطب الدین ایبک کو خط لکھا کہ اب وہ ہندستان کا انتظام سنبھال لیں۔
11ذی قعدہ 602ھ/19جون 1206ءکو قطب الدین ایبک لاہور کے نواح میں دادیموہ کے مقام پر پہنچے۔آپ کی آمد سے پہلے ہی لاہور کے شہریوں کو سلطان کی آمد کی اطلاع مل چکی تھی۔انہیں یہ بھی خبر مل گئی کی سلطان قطب الدین ہندستان کی حکومت کا اعلان کرنے والے ہیں تو عوام میں خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ہر شخص سلطان کی آمد کی تیاریوں میں لگ گیا ،ان میں غیر مسلم بھی جوش و خروش سے حصہ لے رہے تھے۔حالانکہ یہ جون کا مہینہ تھا اور سخت گرمی تھی۔
18ذی قعدہ602ھ/26جون 1206ءکو قطب الدین لاہور میں داخل ہوئے۔اگلے دن قطب الدین پورے ہندستان کے سلطان بن گئے۔قطب الدین ایبک کو چوگان(پولو)کھیلنے کا بہت شوق تھا۔اس کھیل میں شہسواری پر عبور حاصل کرنا بہت ضروری ہے۔لاہور میں ایک وسیع میدان چوگان کے لیے وقف تھا۔میدان میں کئی عربی،تُرکی اور مقامی گھوڑے مخصوص تھے۔607ھ/1210ءمیں قطب الدین ایبک چوگان کھیل رہے تھے۔کہ وہ اچانک گھوڑے سے گر پڑے،اور وہ اس زاویے سے گرے کہ گھوڑے کی زین کا اگلا فولادی حصہ ان کے سینے میں پیوست ہو گیا۔یہ زخم اتنا گہرا تھا کہ وہ جانبر نہ ہوسکےاور یوں برصغیر ایک متقی اور لائق حکمران سے محروم ہو گیا۔
قطب الدین ایبک کو لاہور ہی میں سپردِ خاک کیا گیا۔ان کے بعد آنے والے حکمران شمس الدین التمش نے انکا مقبرہ تعمیر کروایا۔مغلوں کے دور حکومت میں جب شہر کی توسع ہوئی تو مقبرے کے قریب جو محلہ آباد ہوا وہ محلہ قطب غوری کہلانے لگا۔ مہا راجہ رنجیت سنگھ کے دور میں مقبرے اور اس سے متصل دیواروں کو تباہ کر دیا گیا۔قیامِ پاکستان کے بعد قطب الدین ایبک کے مزار کو دوبارہ تعمیر کیا گیا۔ آج بھی قطب الدین ایبک کا مزار لاہور کے انار کلی بازار میں موجود ہے جہاں مسلمان اس عظیم حکمران کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں۔
برصغیر کی مکمل تاریخ
برصغیر کی مکمل تاریخ