دوسرے خلجی سلطان
سلطان علاء الدین خلجی ذہین،معاملہ فہم، اور منتظم حکمران جنہوں نے برصغیر کو متحکم فلاحی ریاست بنایا۔
علاءالدین خلجی کی پیدائش 1266ءمیں ہوئی۔علاءالدین خلجی کی ابتدائی زندگی کے بارے میں تاریخ نے خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ان کے والد کا نام ملک شہاب الدین خلجی تھا۔علاءالدین خلجی برصغیر کے پہلے خلجی حکمران جلال الدین خلجی کے بھتیجے تھے۔جلال الدین خلجی جب 689ھ/1290ءمیں حکمران بنے تو انہوں نے علاءالدین خلجی کو اپنے مشیروں میں شامل کر لیا،اور اپنی ایک بیٹی سے انکی شادی کر دی۔
جلال الدین خلجی نے 692ھ/1290ء میں علاءالدین خلجی کو کڑہ مانک پور کا حاکم بنا دیا۔اس زمانے میں علاءالدین خلجی نےبھیلسہ(بھوپال کا ایک نواحی مقام)پر جلال الدین خلجی کی اجازت پر حملہ کیا۔یہ حملہ کامیاب رہا اور علاو الدین خلجی کے ہاتھ بہت سا مالِ غنیمت لگا ،جب وہ یہ مالِ غنیمت لے کر جلال الدین خلجی کے پاس پہنچے تو انہوں نے انکی بہت تعریف کی اور انہیں وزارتِ دفاع کا سربراہ مقرر کر دیا۔اس کے ساتھ ساتھ اُدھ کا انتظام بھی ان کے حوالے کر دیا۔
الگے سال علاءالدین خلجی نے دیو گڑھ پر حملہ کیا،ان کے ساتھ فوج کی تعداد زیادہ نہ تھی ،لیکن انہوں نے راستے کی تکالیف برداشت کیں اور دیو گڑھ جا پہنچے۔راجارام دیو نے مقابلہ کیا اور اسے شکست ہوئی۔شکست کے بعد راجا نے بہت سے ہاتھی گھوڑے،سونا،موتی اور قیمتی کپڑے پیش کیے اور اطاعت کا اقرار کیا۔لیکن جب علاءالدین خلجی واپس روانہ ہوئے تو رام دیو کے بیٹے نے دیو گڑھ سے تین کوس کے فاصلے پر اپنی فوج لا کھڑی کر دی۔ واپسی پر دونوں فوجوں میں جنگ چھڑ گئی اور آخر فتح علاءالدین خلجی کو ہی حاصل ہوئی۔اس فتح کے بعد علاءالدین خلجی نے دیو گڑھ کے قلعے کا پھر سے محاصرہ کیا ۔اہل ِ قلعہ نے ڈٹ کر مقابلہ کیا۔انہیں اس بات کا یقین تھا کہ ان کے پاس محاصرے میں زندہ رہنے کے لیے وافر مقدار میں خوراک کی بوریاں موجود ہیں ۔لیکن انہیں جلد معلوم ہو گیا کہ ان بوریوں میں تو نمک بھڑا ہوا ہے۔آخر تنگ آکر راجا رام دیو نے صلح کی درخواست کی اور سینکڑوں من سونا ،موتی،یاقوت،چاندی ،ریشمی کپڑےاور دیگر چیزیں پیش کیں۔ علاءالدین خلجی اس مُہم میں پیش قدمی کرتے ہوئے ایلچ پور پہنچ گئے تھے۔اُدھر سلطان جلال الدین خلجی کو اس فتح کی خبر مل چکی تھی ۔چناچہ انہوں نے ملک احمد چپ کے اصرار پر کڑہ تک کا سفر کیا۔علاءالدین خلجی بھی مال ِ غنیمت کے ساتھ کڑہ پہنچ گئے۔دونوں کی ملاقات 17 رمضان المبارک695ھ/19جولائی 1296ءمیں دریائے گنگا کے کنارے ہوئی،ابھی گفتگو شروع ہی ہوئی تھی کہ چند سپاہیوں نے ان پر حملہ کر کے انہیں شہید کر دیا۔
کئی مؤرخین لکھتے ہیں کہ جلال الدین خلجی کو علاؤ الدین خلجی کے کہنےپر قتل کیا گیا تھا۔اگر یہ بات درست ثابت ہو تی ہے تو علاو الدین خلجی کا یہ جرم نا قابلِ معافی ہے۔لیکن جب ہم علاو الدین خلجی کے دورِ حکومت دیکھتے ہیں تو ہماری نظر میں ان کی عزت اور بڑھ جاتی ہے۔سلطان جلال الدین خلجی کے قتل کے بعد انکی ملکہ نے اپنے چھوٹے بیٹے شہزادہ رکن الدین ابراہیم کو سربراہِ مملکت بنانے کا اعلان کیا۔ جلال الدین کے منجھلے بیٹے ارکلی خان ان دنوں ملتان میں تھے۔علاءالدین خلجی دہلی شہر کی طرف بڑھے۔جب وہ بدایوں پہنچے تو انہیں اس فوج کا سامنا کرنا پڑا جو رکن الدین ابراہیم نے ان سے لڑنے کے لیے بھیجی تھی،یہ فوج علاءالدین خلجی سے جا ملی،رکن الدین ابراہیم کے پاس اس صورت میں ایک ہی راستہ بچا تھا ،انہوں نے تھوڑی سی رقم لی اور اپنے اہل خانہ کے ساتھ ملتان روانہ ہو گئے۔ علاءالدین خلجی اب سیری کے جنگل میں ٹھرے ہوئے تھے۔کہ شہر کے تمام رفقا انکی خدمت میں حا ظر ہوئےاور علاو الدین خلجی کے نام کا خطبہ اور سکہ جاری کیا۔
علاءالدین خلجی 22ذوالحجہ 695ھ/21 اکتوبر 1296ء کو بڑی شان و شوکت کے ساتھ دہلی شہر میں داخل ہوئےانکی تخت نشینی پر شہر میں جشن منایا گیا۔تخت نشین ہونے کے بعد 698ھ/1298تا1299ءکے درمیان منگولوں نے دریائے سندھ کو عبور کیا اور انہوں نے بر صغیر پر حملہ کر دیا۔علاءالدین خلجی نے اپنے بھائی الغ خان ،ظفر خان اور الپ خان کو فوج دے کر روانہ کیا۔ جالندھر کے مقام پر دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی۔ الغ خان نے گھات لگا کر حملہ کیا جس سے دشمن کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی،اور منگول شدید جانی و مالی نقصان کے بعد بھاگ کھڑے ہوئے۔
علاو الدین خلجی نے اپنی حکومت کے تیسرے سال کے شروع میں ایک بڑی فوج کے ساتھ گجرات پر حملہ کر دیا۔امیر خسرو نے اس حملے کی تاریخ 20 جمادی الاولیٰ 698ھ/24فروری1299ء بیان کی ہے۔ گجرات کے راجہ رائے کرن نے بھاگ کر راجہ رام دیو کے پاس پناہ حاصل کر لی۔اس کے بعد علاءالدین خلجی نے گجرات پر قبضہ کر لیا۔اس زمانے میں علاو الدین خلجی کے ایک عہدے دار نصرت خان نے کھمبایت پرحملہ کیا ۔یہ شہر احمد آباد سے 52 میل دور واقع ہے۔اسی سال ایلخانی منگولوں نے "صلدی"کی قیادت میں حملہ کر کے سیوستان (اب سہون)پر قبضہ کر لیا۔ظفر خان ایک بڑا لشکر لے کر سیوستان گئے اور انہوں نے قلعے کا محاصرہ کر لیا۔انہوں نے صرف تیروں تلواروں کی مدد سے قلعہ پر قبضہ کر لیا۔ظفر خان کی اس فتح سے انکی دھاک پورے علاقے میں پھیل گئی۔
اسی سال کے آخر میں منگول خان "قتلغ خان"ایک بڑا لشکر لے کر حملہ آور ہوا۔یہ منگولوں کا علاءالدین خلجی کی سلطنت پر تیسرا حملہ تھا۔ منگولوں کو دہلی شہر کو فتح کرنے کی اتنی دُھن تھی کہ انہوں نے راستے میں کہیں بھی لوٹ مار نہ کی اور آندھی کی طرح آ کر شہر کا محاصرہ کر لیا۔منگولوں کے اس حملے سے لوگوں میں خوف پھیل گیا اور لوگوں کا ایک بڑا مجمع دہلی شہر کے باہر آ کھڑا ہوا۔علاءالدین خلجی نے صورتِ حال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے جنگی تیاریاں مکمل کیں۔شہر کے تمام دروازے بند کیے جا چکے تھے۔پھر سلطان علاو الدین خلجی اپنی فوجوں کے ساتھ سیری سے کیلی کے مقام پر پہنچے۔یہاں مسلمانوں اور منگولوں کے درمیان خون ریز جنگ ہوئی۔مسلمان بڑی بے جگری سے لڑے جس سے کہ منگول بھاگ کھڑے ہوئے۔ظفر خان اپنے دستے کے ساتھ 18 کوس تک دشمن کا تعاقب کرتے رہے اس دوران منگولوں نے انکا محاصرہ کر لیا اور انکے گھوڑے کی ٹانگیں کاٹ ڈالیں لیکن وہ پھر بھی بے جگری سے لڑتے رہے،لیکن مسلسل حملوں کی وجہ سے وہ شہید ہو گئے۔اب اگر منگول چاہتے توواپس پلٹ کر باقی لشکر پر حملہ کر سکتے تھے لیکن مسلمانوں کی ہیبت اور بہادری سے وہ سخت خوفزدہ تھے۔یہاں تک کہ ظفر خان کی شہادت کے باوجود ان پر خوف تاری تھا۔یہ دہشت ان پر مدتوں تاری رہی،اور جب انکے گھوڑے پانی نہیں پیتے تھے تو وہ کہتے تھے کہ شاید ہمارے گھوڑوں نے ظفر خان کو دیکھ لیا ہے جو پانی نہیں پیتے۔
علاو الدین خلجی نے اب اپنی سلطنت کی طرف توجہ دی اور جہاں جہاں سے بغاوتیں ہو رہیں تھیں وہاں فوج بھیجنے کا ارادہ کیا۔اس کے علاوہ انہوں نے منگولوں کے حملوں کا بھی سد باب کیا۔سب سے پہلے انہوں نے جہائن کا قلعہ فتح کیا اور پھر رنتھنبور کا محاصرہ کیا جو کامیاب رہا لیکن یہاں ان پر قاتلانہ حملہ ہوا جس سے وہ زندہ بچ نکلے ۔اس قلعے کی فتح کے بعد انہوں نے یہ قلعہ الغ خان کے حوالے کر دیا۔پھر علاو الدین خلجی واپس دہلی آگئے۔
700ھ/1300ءمیں انہوں نے مالوہ کو اپنی سلطنت میں شامل کر لیا۔انہی دنوں میں دہلی کی جنوب میں واقع قلعہ سیوانہ اور مغربی ریاست جودھپور میں جالور کا علاقہ بھی فتح کر لیا گیا۔اس کے کچھ عرصے کے بعد علاءالدین خلجی نے ایک فوج بنگالہ کے راستے تلنگانہ کے مشہور علاقے ورنگل کو فتح کرنے کے لیے بھیجی اور باقی لشکر لے کر چتوڑ کے قلعے کی فتح کے لیے روانہ ہوئے۔یہاں علاءالدین خلجی نے 6ماہ کے طویل محاصرے کے بعد محرم 703ھ/اگست 1303ءمیں اس قلعے کو فتح کر لیا۔پھر یہ قلعہ اپنے نائب خضر خان کے حوالے کر کے اس علاقے کا نام خضر آباد رکھ دیا۔
ادھر جب منگولوں کو خبر ملی کہ علاو الدین خلجی دار الحکومت سے دور ہیں تو انہوں نے بر صغیر کی جانب پیش قدمی شروع کر دی۔ادھر علاو الدین خلجی کو بھی منگولوں کی خبر مل چکی تھی اسی لیے وہ دہلی کی طرف روانہ ہو گئے۔اس زمانے میں علاو الدین خلجی کی فوج کا ایک بڑا حصہ دکن کی مہم پر گیا ہوا تھا۔اس خیال سے علاءالدین خلجی کو تشویش ہوئی لیکن انہوں نے سیری کے علاقے میں پڑاو ڈالا اور چاروں طرف خندق کھدوا ڈالی۔منگولوں نے دہلی کے نواحی علاقے پر قبضہ کر لیا۔علاو الدین خلجی نے وہ دستے واپس بلوا لیے جو جنگ میں مصروف تھے،لیکن راستے میں دریائے جمنا پر منگولوں نے ناکہ بندی کی ہوئی تھی۔ان حالات میں علاو الدین خلجی کے ساتھ جتنی فوج تھی وہ جنگ کے لیے تیار تھی۔یہاں اگر منگولوں کا محاصرہ طویل ہو جاتا تو ہو سکتا ہے علاو الدین خلجی کو شکست ہو جاتی ۔لیکن معلوم نہیں کس وجہ سےمنگولوں کے سردار طغری نے محاصرہ اُٹھا لیااور اپنے لشکر سمیت واپس چلا گیا۔
اس کے بعد علاو الدین خلجی نے دار الحکومت سیری منتقل کیا جو دہلی سے تھوڑا ہی دور تھا۔یہاں انہوں نے مضبوط قلعے تعمیر کروائے۔اس کے علاوہ انہوں نے یہ بھی حکم دیا کہ منگولوں کے راستے میں جتنے بھی قلعے آتے ہیں انہیں از سر نو تعمیر کیا جائے اور وہاں انہوں نے با صلاحیت عہدیداروں کا تقرر کیا۔
منگولوں کا چوتھا حملہ 704ھ/1304ءمیں ہوا۔جہاں خراسان کے شہزادے ترتق(برنی نے ترقاق) لکھا ہے،اور علی بیگ فوج لے کر امروہہ تک آ پہنچے۔یہ شہر دہلی سے تقریباً 80 میل کے فا صلے پر ہے۔علاءالدین خلجی نے اپنے نائب ملک کافور کو فوج دے کر مقابلے کے لیے روانہ کیا۔امروہہ کے قریب دونوں فوجوں کے درمیان جنگ ہوئی جس میں مسلمانوں کو فتح حا صل ہوئی۔ ترتق اور علی بیگ دونوں گرفتار ہوئے اور انہیں سزائے موت دی دی گئی۔
اسی سال ایک اور منگول سردار کبک نے فوج جمع کی اور ملتان پر حملہ آور ہوا۔یہ منگولوں کا پانچواں حملہ تھا۔علاءالدین خلجی نےملک کافور کو ان کے مقابلے کے لیے بھیجا لیکن جب وہ ملتان پہنچے تو منگول لوٹ مار کر کے بھاگ چکے تھے،اسلامی لشکر نے انکا پیچھا کیا اور ان سے چھینا ہوا مال واپس لے لیا،اور سردار کبک کو گرفتار کر لیا۔یحیٰ بن احمد سر ہندی کے مطابق اس کے بعد منگولوں نے کوئی حملہ نہیں کیا، لیکن ضیا برنی کے مطابق 707ھ/1307تا 1308ءمیں ایک اور منگول سردار اقبال مندہ نے حملہ کیا۔اس بار مسلمانوں کا مقابلہ تلنبہ میں ہوا جس میں منگولوں کے ہزاروں سپاہی مارے گئے۔اس شکست کے بعد منگولوں کے دل میں برصغیر کےمسلمانوں کا رعب اس قدر بیٹھا کہ پھر انہوں نے بر صغیر پر حملے کی کوشش نہ کی۔
منگولوں کی طرف سے سکون حاصل کرنے کے بعد علاءالدین خلجی نے باقی علاقوں کی طرف پیش قدمی کی۔دکن میں دیو گیر کا راجہ بغاوت پر اتر آیا تھا۔جس کی سر کوبی کے لیے انہوں نے ملک کافور کو فوج دے کر روانہ کیا،انہوں نے حملہ کیا اور راجہ کو اسکے بیٹے سمیت قید کر کے دہلی میں علاءالدین خلجی کے سامنے حاضر کیا ،لیکن علاءالدین خلجی نے انہیں معاف کر دیا۔علاءالدین خلجی نے 709ھ/1309ءمیں ملک کافور کو ایک بڑا لشکر دے کر ارنگل (اسے اب ورنگل کہتے ہیں ،بعد میں یہ سلطنت آصفیہ حیدر آباد کا ضلع بنا۔اس جگہ پہلے ایک قلعے کی تعمیر ہوئی پھر شہر آباد ہوا)بھیجا۔یہاں راجہ لددیو حکمران تھا ملک کافور نے اسے شکست دی ااور سالانہ خراج عائد کیا۔
سنہ 710ھ/1310ءکے ابتدائی مہینوں میں ملک کافور نے ارنگل سے آگے بڑھ کر دکن کو پورے سمندر تک فتح کر لیا۔اس فتح میں میسور اور دکن کے دیگر شمالی علاقے بھی شامل تھے۔علاو الدین خلجی پہلے سلطان تھے جن کی سلطنت کی سر حدیں ہمالیہ سے راس کماری تک پھیل گئی تھیں۔
علاء الدین خلجی کی عمر اب بہت ذیادہ ہو گئی تھی،اور وہ بیمار رہنے لگے۔زندگی کے آخری حصے میں انہیں تپ دق ہو گئی تھی۔6شوال 716ھ/22دسمبر1316ءکو سلطان علاء الدین خلجی کا انتقال ہو گیا۔جبکہ امیر خسرو اور ضیا برنی نے سنہ وفات 715ھ درج کیا ہے۔علاء الدین خلجی کا جنازہ سیری کے محل سے لایا گیا اور انہیں جامع مسجد کے سامنے مقبرے میں دفن کر دیا گیا۔
Nice
Impressed