صفوی سلطنت کے پانچویں حکمران "عباس اول" جنہوں نے اصفہان کو نصف جہان بنا دیا۔

یہ تقریباً  سات صدی پرانی بات ہے۔آٹھویں صدی ہجری اپنی زندگی کے 90 سال پورے کر چکی تھی۔شمالی ایران پر مشہور ترک فاتح امیر تیمور کی حکومت تھی۔اس زمانے میں ایران کے علاقے گیلان  کا شہر اردبیل   بزرگوں اور اولیا کا مرکز تھا،یہاں ایک بزرگ  حضرت صدر الدینؒ مسندِارشاد پر فائز تھے۔ جب انکی شہرت امیرِ تیمور کے کانوں تک پہنچی ،تو امیر تیمور خود ان سے ملنے کے لیے چلا آیا۔"میں آپ کی کیا خدمت کر سکتا ہوں"۔ امیر تیمور،حضرت صدر الدینؒ سے کہ رہے تھے۔بزرگ نے کچھ سوچا اور فرمایا۔" دیار بکر میں جن ترک باشندوں کو آپ نے اپنا قیدی بنایا ہے آپ انہیں آزاد کر دیجیے"۔امیر تیمور نے ان سے وعدہ کیا اور اس نے ان ترکوں کو رہا کر دیا۔ان ترکوں نے رہا ہونے کے بعد صدر الدینؒ کے ہاتھ پر بیعت کی اور گیلان کے علاقے میں قیام پزیر ہو گئے۔انہی ترکوں کی مدد سے ایران میں وہ حکومت قائم ہوئی جو صفوی حکومت کہلاتی ہے۔صفوی دورِ حکومت 2 صدیوں سے بھی زیادہ عرصے پر محیط ہے،لیکن  اس عہد کا سب سے در خشندہ باب،عباس اول کا 43 سالہ دورِ حکومت ہے۔

عباس اول کا پورا نام عباس مرزا ہے۔عباس اول یکم رمضان 978ھ/بمطابق 27 جنوری 1571 عیسوی کو ماژندران میں پیدا ہوئے۔عباس اول کے والد محمد خدا بندہ نے 10 سال تک حکومت کرنے کے بعد995ھ/بمطابق1587 عیسوی میں حکومت اپنے اس بیٹے عباس اول کے حوالے کر دی۔اس وقت  عباس اول کی عمر بمشکل سولہ سال تھی۔جس وقت عباس اول نے اقتدار سنبھالا اس وقت ایران عدم استحکام کا شکار تھا۔مشرق میں خراسان کا علاقہ ازبک قبائل کے قبضے میں تھا اور  شمال مغربی ایران کو ترکوں کی جانب سے حملے کا خطرہ تھا۔اس وقت ایران مختلف بغاوتوں کی زد میں تھا۔

عباس اول نے ان تمام بغاوتوں اور شورشوں پر قابو پا لیا۔عباس اول995ھ/بمطابق1587 عیسوی کو  فرمانروا بنے۔آپ کی 3 سال تک ترکوں سے جنگ جاری رہی۔لیکن اس کے بعد عباس اول نے بیدار مغز حکمران ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے،998ھ/بمطابق1590عیسوی میں  انہوں نے ترکوں سے صلح کر لی۔اس صلح نامے کے نتیجے میں  شمال مغربی سمت سے انہیں اطمینان ہو گیا۔1007ھ/بمطابق 1598عیسوی میں "رابرٹ شرلے اور سر اینتھولی شرلے" کی قیادت میں انگریزوں کی ایک جماعت قزوین پہنچی۔ یہ انگریز اپنے ساتھ عباس اول کے لیے تحفے لائے تھے۔عباس اول نے ان کے ساتھ کوئی معاہدہ تو نہیں کیا البتہ ایران کو دفاعی اعتبار سے مضبوط کرنے کے لیے انہوں نے ان انگریزوں کی مدد ضرور لی۔آپ نے 60ہزار بندوقیں اور 12 ہزار توپیں تیار کرائیں ۔

سنہ1007ھ/بمطابق1598عیسوی میں عباس اول نے ازبک قبائل کو ہرات میں شکست دیاور مشہد اور ہرات ان سے واپس لے لیے۔یہ علاقے 10 سالوں سے ازبکوں کے قبضے میں تھے۔شمال مشرق کی ان سرحدوں کو محفوظ بنانے کے بعد عباس اول نے ان ازبک سرداروں کو جنہوں نے انکی اطاعت  کا اقرار کیا تھا،عباس اول نے انہیں بلخ، مرو اور استر آباد میں سردار مقرر کیا۔1011ھ/بمطابق1602عیسوی میں ترکوں کے خلاف مہموں کا آغاز ہوا۔ترکوں کے خلاف ان جنگوں کا سلسلہ 15 سال جاری رہا۔اس عرصے میں عباس اول نے  تبریز،ایریوان،کردستان،موصل،دیار بکر، نجف اور کربلا کے علاقوں کو فتح کیا۔1010ھ/بمطابق1601عیسوی میں عباس اول نے بحرین کا الحاق ایران سے کر دای۔1016ھ/1607عیسوی میں  شیروان پر صفویوں کا دوبارہ قبضہ ہو گیا۔1021ھ/بمطابق1612عیسوی میں خلافت عثمانیہ اور صفویوں کے مابین ایک معاہدہ ہوا جس کی رو سے ایران کی وہی سرحدیں  قبول کر لی گئیں جو کہ عثمانی سلطان سلیم اول کے زمانے میں تھیں۔بدلے میں عباس اول نے عثمایوں کو  ریشم کی 200 گانٹھیں سالانہ دینے کا وعدہ کیا۔

خلیج فارس میں ایک بندرگام ہر مز کو  تجارتی لحاظ سے بہت اہمیت حاصل تھی۔ایک ایرانی محاورہ ہے کہ"۔

اگر رُوے زمین کو ایک انگشتری فرض کر لیا جائے تو ہر مز اس کا نگینہ ہے"

16ھویں صدی عیسوی  کی شروعات میں اس پر پرتگیزیوں کا قبضہ ہو گیا تھا۔ اس قبضے کا قصہ کچھ اس طرح سے ہے کہ913 ھ/بمطابق 1507عیسوی میں حکومتِ پرتگال  نے اپنی بحریہ کے کپتان  الفانسو کو ہرمز پر قبضے کے لیے بھیجا۔ اس زمانے میں ایران پر شاہ اسمعٰیل صفوی کی حکومت تھی۔الفانسو نے 7 جنگی جہازوں کا بیڑہ لیا اور اپنی بندرگاہ سوقوطرا سے روانہ ہوا۔اس نے راستے میں تمام بندرگاہوں کو لوٹا اور پھر ہرمز بندرگاہ پہنچا اور اس پر قبضہ کر لیا۔لیکن جہازوں کے کپتانوں میں اختلاف کی وجہ سے اسے واپس جانا پڑا۔7سال بعد حکومت پرتگال نے الفانسو کو ہندستان کا وائسراے بنا کر بھیجا۔الفانسو نے 921 ھ/بمطابق 1515 عیسوی میں  ایک طاقتور بحری بیڑے کی مدد سے ہرمز بندر گاہ پر حملہ کیا ،اور یہاں پرتگیزیوں کا قبضہ ہو گیا۔الفانسو نے یہاں ایک شاندار قلعہ تعمیر کرایا۔ ہرمز کی اس بندر گاہ پر پرتگیزیوں کا 100 سال تک قبضہ رہا۔لیکن جب عباس اول نے اقتدار سنبھالا تو  انہوں نے اس اہم بندر گاہ کو  پر تگیزیوں سے واپس لینے کا فیصلہ کیا۔اس لیے انہوں نے حملے کے لیے تیاریاں کیں ،اور1031ھ/بمطابق1622 عیسوی میں ایک زبر دست جنگ کے بعد ہر مز کو عباس اول نے پرتگیزیوں سے واپس لے لیااور ان کے تمام جہاز تباہ کر دیے گئے۔ہرمز کا پرتگالیوں نے نیا نام کمبرون رکھ دیا تھا۔لیکن پرتگالیوں سے اس بندر گاہ کو واپس لینے کے بعد  اس کا نام عباس اول کے نام پر عباس  رکھ دیا گیا۔آج بھی یہ بندر گاہ اسی نام سے  پہچانی جاتی ہے۔

عباس اول نے یورپی ملکوں اور ہندستان  کے ساتھ دوستانہ تعلقات قائم کیے۔ہندستان کے مغل بادشاہ اکبر اور جہانگیر سے ان کے اچھے تعلقات تھے۔کریمیا کے خوانین سے بھی ان کے مراسم دوستانہ تھے۔

عباس اول کا انتقال جمادی الاول1038ھ/بمطابق جنوری1629عیسوی میں 58سال کی عمر میں ہوا۔یوں صفوی عہد کے سوا دو سو برسوں میں عباس اول کا42سالہ دورِحکومت ترقی اور خوشحالی کا دور مانا جاتا ہے۔

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

سلجوقی سلطنت کے قیام اور زوال کی مکمل داستان

سلجوقی سلطنت کو عالم اسلام کی چند عظیم سلطنتوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ سلجوقی سلطنت کا قیام "گیارہویں" صدی عیسوی میں ہوا۔ سلجوق در اصل نسلاََ    اُغوز ترک تھے۔اس عظیم سلطنت کا قیام"طغرل بے"اور"چغری…

مزید پڑھیں
سپین میں مسلمانوں کا 800 سالہ دور حکومت

جزیرہ نما آیبیریا   جو کہ ہسپانیہ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مغربی رومی سلطنت کے ختم ہو جانے کے بعدیہاں پر مکمل طور "گاتھک" خاندان کی حکومت قایم ہو گی۔لیکن انکی یہ حکومت زیادہ عرصہ…

مزید پڑھیں
قسطنطنیہ کی فتح

سلطنت عثمانیہ نے  قسطنطنیہ کو فتح کرنے اور بازنطینی سلطنت کو ختم کرنے کے لیے کی بار اس شہر کا محاصرہ کیا۔ لیکن یہ محاصرے صلیبیوں کے حملے،تخت کے لیے خانہ جنگی،بغاوت اور امیر تیمور کے…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں