/ تاریخِ اسلام / حیاتِ محمد

حضرت محمدؐ کی شادی ،نبوت،اہلِ مکہ کے مظالم،حبشہ کی جانب ہجرت اور حضرت عمرؓ کے اسلام لانےکے واقعات۔

حضرت خدیجہ الکبریٰ کا حق مہر:۔

آپ صلی الله علیه وسلم نے حضرت خدیجہ الکبریٰ کو بیس اونٹ حقِ مہر میں ادا کیے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ کی درخواست پر ان کے ہاں رہائش پذیر ہو گئے ۔اس کے بعد آپ صلی الله علیه وسلم کی زندگی کا وہ باب شروع ہوا جس کے اس سے قبل پچیس سالہ زندگی کا ہر ورق بد عنوانی کے داغ سے صاف و شفاف تھا۔ 25 سالہ زندگی کے کسی بھی عہدِ جوانی کا کوئی فتنہ اثر انداز نہ ہوا۔ آپ صلی الله علیه وسلم کی بے لوث، پر خلوص، پاک وصاف جوانی کی مثال آپ صلی الله علیه وسلم کی ازدواجی زندگی کا بہترین نمونہ ہے۔

 

سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی الله عنہا کے بطن سے دو فرزند قاسم اور عبد اللہ پیدا ہوئے ۔ جن کے لقب طاہر اور طیب تھے۔ یہ بچپن ہی میں دائمی مفارقت دے گئے۔ ان کے بعد آپ صلی الله علیه وسلم کی چار صاحبزادیاں سیدہ خدیجہ الکبریٰ کے بطن پاک سے پیدا ہوئیں ۔

 

آپ صلی الہ وسلم کا حلیہ مبارک:۔

 

آپ صلی الله علیه وسلم حسین چہره، درمیانہ قد، نہ زیادہ طویل نہ پست، سیاہ گھنگھریالے بال ، جبین کشادہ، بھنویں بالوں سے بھری ہوئیں اور خمیدہ سی، دونوں بھنوؤں کے اندرونی کنارے ایک دوسرے سے ملے ہوئے ، آنکھیں سیاہ اور بڑی بڑی، جن کی سیاہی کے بعد نہایت کھلی ہوئی سفیدی اور سفیدی کا حلقہ سرخ گول سا ہالہ جس نے جاذبیت میں اور بھی اضافہ کر دیا تھا، آنکھوں سے ذہانت و فطانت اور فہم و فراست کے آثار نمایاں نظر آتے تھے۔ لمبی اور سیاہ پلکیں، ناک ، سیدھی اور ستواں، سفید موتیوں جیسے دانت ، دانتوں میں ہلکا ہلکاخلا جیسے درمیان میں بار یک خط کھینچ دیئے گئے ہوں ۔ آپ صلی الله علیه وسلم کی داڑھی مبارک نہایت گھنی تھی۔ گردن لبی مگر خوبصورت ، سینہ مبارک کشادہ، بدن کی رنگت کھلی ہوئی، ہاتھ کی ہتھیلیاں اور پاؤں مبارک کے تلوےنرم و گداز ، بدن ذرا آگے کو جھکا ہوا، رفتار میں تیزی مگر ہر قدم اپنی جگہ پر جم جاتا ،چہرہ مبارک سے تدبر و تفکر کی علامات نمایاں، نگاہوں میں بارُعب انداز ایسا جو دوسروں کے سرکش دل اپنے سامنے جھکا لے۔

 

قریش میں آپصلی الله علیه وسلم کا مقام و مرتبہ:۔

 

جس طرح آپ صلی الله علیه وسلم حسب و نسب میں سب میں ممتاز تھے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ سےعقد کے بعد دولت و ثروت میں بھی آپ اسلام کا ایک نمایاں مقام بن گیا اور مکہ مکرمہ کے لوگ تو پہلے بھی آپ صلی الله علیه وسلم کو رشک و احترام کی نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ لیکن دولت کے ملنے کے بعد بھی آپ صلی الله علیه وسلم کی تواضع اور ملنساری میں کوئی کمی نہ آئی۔ آپ صلی الله علیه وسلم اپنی کم گوئی کے باوجود دوسروں کی لمبی سے لمبی بات بھی نہایت سکون اور اطمینان سے سنتے ۔ آپ صلی الله علیه وسلم کے اندازِ گفتار میں مزاح کی جھلک بھی ہوتی تھی۔ لیکن جب آپؐ تبسم فرماتے تو آپ صلی الله علیه وسلم کے دندان مبارک نظر نہیں آتے تھے۔ غصے میں بھی آپ صلی الله علیه وسلم کی زبانِ مبارک پر سخت الفاظ نہ آتے ۔ صرف ماتھے پر آپ صلی الله علیه وسلم کے ابرو مبارک پسینے کے ایک دو قطروں سے نم آلود ہو جاتے جو غصہ کا تلخ گھونٹ پینے کا نتیجہ ہوتے الغرض آپ صلی الله علیه وسلم پر شکوہ ، حاجب اراده، وفا، خلوص سراپا، خیر و برکت، جود و کرم میں برستا بادل، مرعوب کن شخصیت کے مالک، عزیمت و استقلال اور روحانی کمالات میں ایسی مثال تھے۔ جس کے خدوخال پر کسی کو تردید کی جرات ہی نہ ہو۔ ان صفات کی وجہ سے آپ صلی الله علیه وسلم کی رفیقہ حیات اُم المومنین سیدہ خدیجہ الکبریٰ رضی الله عنہا کی محبت و وفا میں دن بدناضافہ ہوتا گیا۔

 

خانہ کعبہ کی تعمیر نو:۔

اس وقت آپ صلی الله علیه وسلم کو خانہ کعبہ کی حفاظت کا شدت سے احساس تھا۔ مکہ کی قریبی پہاڑیوں سے آنے والے سیلاب کا ریلا کسی بھی وقت اس کی عمارت کو زمین بوس کر سکتا تھا۔ سیلابی پانی سے اس کی عمارت نہ صرف بنیادوں سے کھوکھلی ہو چکی تھی بلکہ اب اس کی کمزور دیواروں سے اس میں رکھے گئے قیمتی تحائف کی چوری کا خطرہ بھی بڑھ گیا تھا۔ اس سے قبل ایک مرتبہ قریش نے کعبہ کو ازسر نو تعمیر کرنے کا ارادہ کیا مگر اس خوف سے کہ ان پر آسمانی آفات نازل ہو جائیں گی۔ انہوں نے اس کو منہدم کر کے دوبارہ تعمیر کرنے کا ارادہ ترک کر دیا۔ اس دوران ایک مرتبہ سیلابی پانی کا ایک شدید ریلا آیا جس نے کعبہ کی دیوار میں ایک بڑا شگاف ڈال دیا۔ اب مجبوراً انہیں کعبہ کی تعمیر کا کام کرنا ہی تھا۔ اس دوران ان کو خبر ملی کہ ایک مصری تاجر ” با قوم" کی کشتی سمندری طوفان میں لہروں کے تھپڑوں سے تختہ تختہ ہو کر جدہ کے ساحل پر بکھری پڑی ہے اور با قوم بھی وہاں موجود ہے۔

 قریش نے ایک گروہ ولید بن مغیرہ کی قیادت میں وہاں بھیجا جس نے با قوم سے یہ تختے خرید لئے ۔ با قوم چونکہ ایک نجار تھا اس لئے وہ اس کو بھی نجاری ( لکڑی ) کے کام کیلئے ساتھ لے آئے جبکہ مکہ میں ایک قبطی بڑھئ پہلے ہی موجود تھا۔

 

تعمیر کیلئے گروپ بندی:۔

خانہ کعبہ کی از سر نو تعمیر کے لئے اس کی دیواروں کو گرانے کے لئے قریش نے چار گروہ بنا لئے جو خانہ کعبہ کے چاروں جانب کھڑے ہو گئے۔ مگر ان میں سے کوئی بھی عذابِ الہٰی کے خوف کی وجہ سے آگے نہ بڑھا۔ ولید بن مغیرہ ان لوگوں کی ہچکچاہٹ دیکھ کر اپنے دیوتا کو پکارتا ہوا آگے بڑھا اور اس نے رکن یمانی کا کچھ حصہ توڑ کر گرا دیا۔ جب دوسروں نے دیکھا کہ ولید کو کچھ نہیں ہوا تو وہ بھی ہمت کر کے آگے بڑھے اور اپنے اپنے حصے کی سلیں اُٹھا اُٹھا کر ایک جانب رکھنے لگے ۔ اس کام میں حضرت محمد صلی الله علیه وسلم بھی شریک تھے۔ آپ صلی الله علیه وسلم سلیں اُٹھا اُٹھا کر لا رہے تھے۔ اس سے آپ صلی الله علیه وسلم کے شانے مبارک پھیل گئے ۔ اس کام کے دوران سبز رنگ کا ایک بڑا پتھر نمودار ہوا جس کو کھود کر نکالنا ممکن نہیں تھا لہذا اس کو بنیاد ٹھہرا کر کعبہ کی تعمیر کا کام شروع کیا گیا۔ دیواروں کی تعمیر کے لئے نزدیکی پہاڑی سے نیلگوں رنگ کے پتھر کی سلیں تراش کرلائی گئیں ۔ ان سلوں سے ہی کعبہ کی دیوار اٹھائی گئیں ۔

 

حجر اسود کی تنصیب کا تنازعہ:۔

جب خانہ کعبہ کی دیواریں قد آدم تک بلند ہو گئیں تو حجرِ اسود نصب کرنے پر فریقین کے گروہوں میں اختلاف پیدا ہو گیا اور ہر قبیلہ حجر اسود کو نصب کرنے کی فضیلت اور سعادت خود حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اس سے ان کے درمیان وجہ نزاع پیدا گئی۔ یہاں تک کہ "بنو عبد الدار" اور "بنو عدی" نے حلف اُٹھا لیا۔ کہ وہ اپنے علاوہ اور کسی کو کسی قیمت پر یہ فرض سر انجام نہیں دینے دیں گے۔ اس حلف کو پختہ کرنے کے لئے مذکورہ قبیلوں کے افراد نے ایک خون سے بھرے پیالے میں اپنی انگلیاں ڈبو کر یہ عہد کیا کہ وہ اس کیلئے خون بہانے کیلئے بھی تیار ہیں یعنی جنگ کے شعلے پوری طرح بھڑ کنے والے تھے۔ خون میں انگلیاں ڈبونا جاہلیت کی ایک قدیم رسم تھی۔ یہ صورت حال دیکھ کر قریش کے معمر اور محترم شخص ” ابو امیہ بن مغیرہ نے کہا:

"کل صبح جو شخص سب سے پہلے "باب الصفا" کی جانب سے داخل ہو کر کعبہ میں آئےگا اس کا فیصلہ تسلیم کرنا سب پر فرض ہوگا"

یہ سن کر سب نے تلواریں میان میں کر لیں اور اگلے روز صبح کے وقت سب باب صفا کے سامنےجا کر کھڑے ہو گئے ۔ سب سے پہلے باب الصفا کے راستے سے آپ صلی الله علیه وسلم تشریف لائے ۔ آپ صلی الله علیه وسلم کو دیکھتے ہی سب لوگ بیک زبان پکار اٹھے"یہ توصادق و امین ہیں، ہم سب کو ان کا فیصلہ منظور ہے۔"

 اس وقت ہر قبیلہ اور خاندان دوسرے سے دشمنی محسوس کر رہا تھا۔ مگر تاریخ کے اس نازک موڑ پرآپ صلی الله علیه وسلم نے قریش کے درمیان ایک بے نظیر فیصلہ فرمایا۔ آپ صلی الله علیه وسلم نے ہر فریق کے دلائل نہایت

توجہ سے سنے اور جان گئے کہ ہر قبیلہ حجر اسود کی تنصیب کو اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتا ہے۔ اس کے بعد آپ صلی الله علیه وسلم نے زمین پر ایک چادر بچھائی اور حجر اسود کو اپنے دست مبارک سے اُٹھا کر اس پر رکھ دیا اور فریقین سے فرمایا :

"ہر خاندان کا سردار چادر کا ایک ایک کو نہ مضبوطی سے پکڑ کر اُٹھائے اور اس مقام تک بلند کرے جہاں حجر اسود نصب کرتا ہے۔" جب انہوں نے چادر اٹھا کر بلند کی اور حجر اسود کو دیوار کے مطلوبہ مقام تک لے گئے تو

آپ صلی الله علیه وسلم نے حجر اسود کو اپنے مبارک ہاتھوں سے اُٹھایا اور دیوار میں نصب کر دیا۔ آپ صلی الله علیه وسلم کی اس تدبیر سے فریقین خون خرابے سے بھی بچ گئے اور ہر قبیلے اس کام میں برابر شرکت بھی ہوگیا۔

 

تعمیر کعبہ کے دوران آپؐ کی عمر:۔

تعمیر کعبہ کے وقت آپ صلی الله علیه وسلم کی عمر کے بارے میں مؤرخین میں اختلاف ہے۔ اس ضمن میں دوروایتیں ہیں ایک یہ کہ اس وقت آپ صلی الله علیه وسلم کی عمر پچیس برس تھی اور دوسری یہ کہ اس وقت آپ صلی الله علیه وسلم سن مبارک پینتیس برس تھا۔ تا ہم اس بات پر سب متفق ہیں کہ قریش نے یہ فیصلہ کیا تھا کہ کل صبح جو شخص باب الصفا کی جانب سے آئے گا اس کا فیصلہ بلا چوں و چراں تسلیم کر لیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے یہ اعزاز آپ صلی الله علیه وسلم کو عطا فرمایا اور اس واقعہ کے بعد اور خصوصاً اپنی فراست اور پھر حجر اسود کو اپنے مبارک ہاتھوں سے نصب فرمانے پر اہل مکہ کے دلوں میں آپ صلی الله علیه وسلم کی قدرو منزلت میں کئی گنا اضافہ ہو گیا۔

 

بت پرستی سے بیزاری:۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مکہ کے کئی افراد اپنے خداؤں سے دور جا رہے تھے اور پتھر اور لکڑی کے بنے ہوئے بتوں سے ان کی روحانی تسکین نہیں ہو پارہی تھی ۔دراصل ان لوگوں کا آبائی دین تو "دین حنیف یا دین ابراہیمی" تھا۔ جس کی بنیاد خالصتاً عقیدہ توحید پر تھی مگر بعد میں ان کا طرزِ عمل رفتہ رفتہ بت پرستی میں بدل گیا اور ان کے اصل عقائد پسِ پردہ چلے گئے۔ حالانکہ اب بھی وہ لوگ خدائے واحد کو مانتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بت اللہ کے ہاں ان کے سفارشی ہیں اس طرح وہ شرک کے مرتکب ہو رہے تھے ۔ بت پرستی سے ان کی بیزاری کے اظہار کے لئے یہ واقعہ رقم کرنا ضروری ہے۔ کہ ایک مرتبہ نخلہ کے مقام پر "عزٰی"نامی  بت کے سامنے قریش کا ایک اجتماع ہوا۔ اس کے دوران "زید بن عمرو، عثمان بن حویرث ، عبید اللہ بن حبش اور ورقہ بن نوفل چاروں ایک طرف ہو کر بیٹھ گئے اور کہنے لگے۔ کہ ہم بھی کس گمراہی کا شکار ہو چکے ہیں۔ جن پتھروں کو ہم پوجتے ہیں وہ تو سننے اور دیکھنے کی صلاحیت بھی نہیں رکھتے۔ اور ان کے ساتھ ہماری عقیدت کا عالم یہ ہے کہ وہ (بت ) ہماری طرف سے پیش کی جانے والی قربانی کے خون میں نہائے رہتے ہیں ۔ آؤ ! سب مل کر کسی سچے دین میں داخل ہو جائیں۔

 

تلاش مذہب:۔

اس کے بعد ان میں سے ورقہ بن نوفل عیسائی ہو گئے اور عیسائیت کے دوران انہوں نے انجیل کےکچھ حصوں کا عبرانی سے عربی میں ترجمہ کیا۔ اور عبید اللہ بن جحش اسلام کی دعوت پر مسلمان ہو گیا۔ ہجرت حبشہ کے موقع پر اسلام کو چھوڑ کر نصرانی مذہب اختیار کر لیا۔ اور اس پر اس کا خاتمہ ہوا۔ سیدہ اُم حبیبہ بنت ابوسفیان اس کی بیوی تھیں وہ ہجرت کے سفر میں اپنے شوہر کے ساتھ تھیں مگر جب شوہر اسلام سے منحرف ہو گیا تو وہ

 

واپس آگئیں اور حرم نبی کریم صلی الله علیه وسلم میں داخل ہو کر اُمہات المؤمنین کے مقدس گروہ میں شامل ہو گئیں۔ تیسرا شخص زید بن عمرو اپنی اہلیہ اور چچا سے ناراض ہو کر گھر سے نکل گیا اور کچھ عرصہ شام و عراق میں گھومتا ر ہا لیکن وہ یہودیت اور نصرانیت کے ساتھ ساتھ اپنے قدیمی مذہب بت پرستی سے بھی الگ ہی رہا۔ ایک مرتبہ اس نےدیوار کعبہ کے سائے میں بیٹھ کر دعا کی تھی کہ :-

یا اللہ! اگر مجھے اس بات کا علم ہو جائے کہ تو کسی دین سے خوش ہے؟ تو میں اس دین کو اختیار کر کے تیری عبادت کروں ۔ لیکن مجھے کچھ علم نہیں کہ تو کس دین سے خوش ہے۔

 

ان میں چوتھا شخص "عثمان بن حویرث" تھا۔ جو سیدہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کارشتہ دار بھی تھا۔ وہ مکہ چھوڑ کر روم چلا گیا اور وہاں پہنچ کر عیسائیت اختیار کر لی۔ قیصر روم نے اسے اپنے مصاحبین میں شامل کر لیا۔

 

اس کے بعد عثمان نے سوچا کہ اہلِ مکہ کو قیصر روم کا باجگزار بنا کر خود ان کا گورنر بن جائے لیکن قریش اس کے فریب میں نہ آئے۔ اس کے بعد عثمان روم سے حیرہ (شام) میں امیر غسان کے پاس گیا اور اسے مکہ کی جانب جانے والے تاجروں کی ناکہ بندی پر اکسایا مگر جب قریش نے یہ سنا تو امیر غسان کو تحائف بھیج کر اپنی حمایت میں کر لیا۔ عثمان بری طرح ناکام ہو گیا اور عثمان کو وہیں زہر دے کر مار دیا گیا۔

 

آنحضورصلی الله علیه وسلم کی اولاد:۔

 

آپ صلی الله علیه وسلم نے زندگی کے کئی سال اپنے ہم وطنوں میں گزارے۔ آپ صلی الله علیه وسلم کی اپنی شریک

حیات سیدہ خدیجہ الکبریٰ  رضی الله عنہا کی گود ہری بھری دیکھنے کی بے حد خواہش تھی۔ ان کے بطن سے دوفرزند قاسم اور عبد اللہ پیدا ہوئے۔ ان کے لقب طاہر " اور " طیب" تھے اور چارصاحبزادیاں پیدا ہوئیں، اور بیٹیوں میں زینب، رقیہ ، ام کلثوم اور فاطمہ ہیں ۔ دونوں صاحبزادے بعثت سے قبل ہی وفات پا گئے ۔ جن کی موت کا ماں اور باپ دونوں کو بہت صدمہ ہوا۔ اس دور میں لڑکیوں کو زندہ درگور کرنے کا رواج تھا۔ عرب معاشرہ میں فرزندوں سے اپنی زندگی سے زیادہ پیار تھا۔ آپؐ کے تیسرے فرزند ابراہیمؑ بھی بچپن ہی میں فوت ہو گئے۔ اس صدمہ نے آپ صلی الله علیه وسلم کے دل کو غمگین کر دیا ابراہیمؑ کی رحلت کے وقت اسلام میں دختر کشی کو حرام قرار دے دیا تھا۔

آپ صلی الله علیه وسلم نے اپنی بیٹیوں کے رشتے بہت ہی مناسب اشخاص کے ساتھ کئے ۔ سیدہ زینب  رضی الله عنہا کا عقدا "ابو العاص بن ربیع ابن عبد شمس رضی اللہ عنہ" کے ساتھ ہوا۔ یہ خدیجتہ الکبریٰ  رضی الله عنہا کے ہمشیرہ زاد تھے جن کا شمار مکہ کے معزز تاجروں میں ہوتا تھا۔ سیدہ زینب  رضی الله عنہا کو ان کے ہاں کبھی کوئی تکلیف نہ پہنچی۔ سوائے اس موقع کے سبب سیدہ زینب  رضی الله عنہا ہجرت فرما کر مدینہ جانے لگیں۔ سیدہ رقیہ  رضی الله عنہا اور اُمِ کلثوم کا عقد عتبہ اور عتیبہ سے ہوا۔ جو آپﷺ کے چچا ابولہب کے بیٹے تھے۔ بعثت کے بعد اس کی اسلام دشمنی اور کفر کی بھر پور حمایت کی وجہ سے یہ رشتے ٹوٹ گئے ۔ اس کے بعد دونوں کے نکاح یکے بعد دیگرے حضرت عثمان سے ہوئے۔ سیدہ فاطمہ  رضی الله عنہا کی شادی حضرت علیؑ سے ظہور اسلام کے بعد ہوئی تھی۔ 

غار حرا میں غور و فکر:۔

 

اس زمانے میں عرب کے لوگوں کی یہ عادت تھی کہ سب سے کٹ کر گوشہ تنہائی میں اپنے اپنے طریقہ پر غور و فکر کے ساتھ عبادت کرتے اور عاجزی کے ساتھ دعا کرتے اور ان کا مقصد اپنے خداؤں کا قرب حاصل کرنا

ہوتا۔ جس کی بناء پر وہ ان کی طرف سے نوازشوں کا حقدار بنے کی خواہش کرتے۔ آپﷺ نے بھی اس طریقہ عبادت کو بہترین سمجھ کر اور جس حقیقت کی دریافت کے لئے وہ اپنے دل میں ایک بے قراری محسوس فرماتے تھے ۔ آپﷺ نے مکہ سے شمال کی جانب دو میل کے فاصلے پر

غارِ حرا کو اسی مقصد کے لئے منتخب فرمایا۔ اسی مقام پر آپﷺ یکم رمضان المبارک میں خلوت نشینی اختیار کرتے ۔ پورے مہینے کے لئے گھر سے کھانے پینے کا سامان ساتھ لے جاتے اور دنیا جہاں سے بالکل لاتعلق ہو کر مکمل یکسوئی کے ساتھ ربِ کائنات کے بارے میں غور و فکر فرماتے۔

آپﷺ کی عمر مبارک 40 سال کی ہوئی اس وقت بھی غار حرا میں عبادت اور گوشہ نشینی کا سلسلہ جاری تھا۔ اس دوران رویا ( خوابوں ) میں جو حقیقت آشکار ہوئی اور آپﷺ کے ایمان میں اور توانائی آتی گئی۔ باطل کی گہرائیاں واضح ہوتی گئیں ۔ 

ایک روز گھر تشریف لائے اور ہونے والے واقعات کو اپنی وفا شعار رفیقہ حیات سیدہ خدیجہ الکبریٰ  رضی الله عنہا سے دریافت فرمایا : یہ کسی جن کی کارستانی تو نہیں ہے؟“

 

سیدہ خدیجہ نے فرمایا: ہر گز نہیں ، آپ تو امین ہیں ، آپ جیسے عظیم اور پاکیزہ انسان سے جن کبھی نہیں اُلجھتے ۔ 

 

وحی کی ابتداء:۔

آخر کا روحی کے نزول کی مبارک ساعت آہی گئی ۔ آپﷺ غارِ حرا میں محو خواب تھے ۔ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپﷺ کی خدمت میں ایک فرشتہ حاضر ہوا جس کے ہاتھ میں لکھا ہوا ایک صحیفہ تھا۔ آپﷺ سے کہنے لگا: " اقرا" اسے پڑھئے! آپﷺ گھبرائے اور فرمایا "ما اقراء" کیا پڑھوں؟ آپﷺ نے محسوس فرمایا کہ فرشتے نے زور سے آپ کے ساتھ معانقہ کیا ہے اور پھر کہا: اسے پڑھئے آپﷺ نے وہی جواب دیا ۔ فرشتے نے دوسری مرتبہ پہلے کی طرح زور سے معانقہ کرنے کے بعد کہا " اقراء اسے پڑھئے آپﷺ نے فرمایا : ماذا اقراء میں کیا پڑھوں؟ فرشتے نے کہا:

 

اقْرَأْ بِاسْمِ رَبِّكَ الَّذِي خَلَقَ خَلَقَ الْإِنْسَانِ مِنْ عَلَقٍ إِقْرَا وَ رَبُّكَ

 

الأَكْرَمُ الَّذِي عَلَّمَ بِالْقَلَمِ عَلَّمَ الْإِنْسَانَ مَا لَمْ يَعْلَمُ )

 

ترجمہ: (اے حبیبﷺ ) اپنے رب کے نام سے ( آغاز کرتے ہوئے) پڑھئے جس نے ( ہر چیز کو پیدا فرمایا۔ اس نے انسان کو ( رحم مادر میں ) جونک کی طرح معلق وجود

سے پیدا کیا ۔ پڑھئے اور آپ کا رب بڑا ہی کریم ہے جس نے قلم کے ذریعے ( لکھنے پڑھنے کا ) علم سکھایا۔ جس نے انسان کو ( اس کے علاوہ بھی ) وہ ( کچھ ) سکھا دیا جو وہ نہیں جانتا تھا ۔

( سورة العلق ، آیت ۱ تا ۵)

 

آپﷺ نے فرشتے کے سامنے یہ تمام کلمات دہرائے اور جب فرشتہ واپس چلا گیا تو یہ الفاظ آپﷺ کے دل پر نقش ہو گئے ۔

خوف و اضطراب:۔

 

آپﷺ غار سے نکل کر تیز تیز قدموں کے ساتھ گھر کی جانب چل دیئے اور سوچتے رہے کہ آخر یہ کون تھا جس نے مجھے اس طرح پڑھنے پر مجبور کیا۔ ان باتوں کو سوچتے ہوئے پہاڑوں میں چلتے رہے۔ 

اسی دوران حضرت خدیجہ  رضی الله عنہا نے آپﷺ کی تلاش میں ایک شخص کو غار حرا میں بھیجا۔ مگر آپﷺ وہاں تشریف فرما نہ تھے۔ اُدھر فرشتے کے غائب ہونے سے آپﷺ پرنئی کیفیتیں پیدا ہونے لگیں ۔ وحی کی کیفیت سے روح میں ابھی تک سرور و انبساط طاری تھا۔

 

سیدہ خدیجہ  رضی الله عنہا کی تائید:۔

اسی دوران نبی کریمﷺ انتہائی اضطراب کی حالت میں گھر تشریف لے گئے اور اپنے ساتھ پیش آنے والا سارہ قصہ سیدہ خدیجہ  رضی الله عنہا سے بیان کیا۔ اُس وقت آپﷺ کے دل میں خوف و ہراس کاعالم تھا۔ سیدہ خدیجہ  رضی الله عنہا نے اُس وقت تسلی دیتے ہوئے فرمایا:

"اللہ کی قسم! اللہ آپ کو ہرگز رسوا نہیں کرے گا، کیونکہ آپ (ﷺ) تو صلہ رحمی کرتے ہیں۔ ضعیفوں کا بوجھ اُتھاتے ہیں، محتاجوں کیلئے کماتے ہیں،مہمان نوازی کرتے ہیں اور راہِ حق میں مصائب پر مدد فرماتے ہیں۔"

حضرت خدیجہ  رضی الله عنہالا کی ورقہ بن نوفل سے گفتگو:۔

حضرت خدیجتہ الکبریٰ اپنے چچازاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس گئیں۔ جس نے کچھ عرصہ قبل بت پرستی چھوڑ کر عیسائی مذہب اختیار کر لیا تھا اور انجیل کا عبرانی زبان سے عربی میں ترجمہ کر رہا تھا۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ نے اُن کے سامنے آپﷺ کے ساتھ پیش آنے والے واقعات کو تفصیل کے ساتھ بیان کر دیا ورقہ بن نوفل نے ساری روداد سننے کے بعد کہا:

"پاک ہے اللہ، قسم ہےاُس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اے خدیجہ اگر یہ سب کچھ سچ ہے جو تم نے کہا ہے تو یہ وہی ناموس اکبر فرشتہ ہےجو حضرت موسیٰ پر نازل ہوا تھا۔ اے خدیجہ آپ کے شوہراس اُمت کے نبی ہوں گے ۔ میری طرف سے ان کو عرض کریں کہ مصیبت میں ثابت قدم رہیں ۔

اسی اثناء میں نبی کریمﷺ حضرت خدیجہ رضی الله عنہا کے ساتھ گھر واپس لوٹ آئے اور ابھی تک آپﷺ کی حالت اضطراب میں کمی نہ آئی اور بدن پر کپکپی طاری ہوگئی اور پیشانی سے پانی کے قطرےگرنے لگے۔ تو سیدہ خدیجہ  رضی الله عنہا سے فرمانے لگے:۔

"مجھ پر چادر اوڑھ دیں ، مجھ پر چادر اوڑھ دیں ۔“

 پھر اچانک آپﷺ اُٹھ کھڑے ہوئے۔ یہ نزول وحی کا ردعمل تھا اور فرشتہ یہ وحی لے کر نازل ہوا تھا۔

ترجمہ:

" اے کپڑے میں لپٹنے والے! اٹھو اور لوگوں کوخبر دار کرو، اور اپنے پروردگار کی تکبیر کہو، اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو، اور گندگی سے کنارہ کرلو، اور کوئی احسان اس نیت سے نہ کرو کہ زیادہ وصول کر سکو، اور اپنے پروردگار کی خاطر صبر سے کام لو۔ پھر جب صور میں پھونک مار دی جائے گی تو وہ بڑا مشکل دن ہوگا ، کافروں کیلئے وہ آسان نہیں ہو گا ۔“

( سورۃ المدثر ۷۴، آیت اتا ہے )

 

حضرت خدیجہ  رضی الله عنہا اپنی آنکھوں سے یہ روشن سچائی کو دیکھ کر آپﷺ اور ہم کو محبت بھرے اور حوصلہ افزاء انداز سے عرض کی تھوڑی دیر اور سو جائیں تا کہ مکمل آرام مل جائے آپﷺ نے ارشاد فرمایا: "نیند اور آرام کا زمانہ ختم ہوا۔ جبریل علی السلام نے مجھے اللہ تعالیٰ کا یہ پیغام دیتے ہوئے کہا ہے کہ اللہ کا حکم ہے کہ میں لوگوں کو اسی وحدہ لاشریک کی طرف آنے کی دعوت دوں کہ عبادت کے لائق صرف وہی ذات ہے لیکن خدیجہ میں یہ بات کس سے کہوں؟ اورکیسے کہوں یہ کون سنے گا ؟“

حضرت خدیجہ الکبریٰ رضی الله عنہا نے عرض کیا میں آپﷺ کی صداقت کو تسلیم کرتی ہوں اور تصدیق کرتی ہوں۔ پھر وہ اللہ تعالی کی وحدانیت اور آپﷺ کی رسالت کا اقرار کر کے ایمان لے آئیں۔ اس کے بعد حضرت خدیجہ  رضی الله عنہا ورقہ بن نوفل سے ہونے والی گفتگو کی تفصیل بتاتیں ہیں۔

ورقہ بن نوفل کی پیشین گوئی:۔

بعثت کے بعد ایک روز آپﷺ طوافِ کعبہ کے لئے حرم بیت اللہ میں تشریف لے گئے، تو وہاں ورقہ بن نوفل سے ملاقات ہوئی۔ آپﷺ سے گفتگو کرتے ہوئے ورقہ بن نوفل نے کہا:

خدا کی قسم ! آپ (ﷺ) اس امت کے نبی ہیں اور جو ناموس حضرت موسیٰ علیہ السلام پر نازل ہوا، وہی آپ ﷺ پر نازل ہوا ہے۔ مگر دیکھئے گا محترم! جب یہ لوگ آپ (ﷺ) کی تکذیب کریں گے۔ آپ (ﷺ) کو تکالیف پہنچائیں گے اور آپ (ﷺ) کو مکہ سے نکال دیں گے اور اس کے بعد اہلِ مکہ آپ (ﷺ) سے جنگ بھی کریں گے۔ اگر میں اس وقت تک زندہ رہا تو آپ (ﷺ) کی مدد کروں گا۔

 

آپﷺ نے دریافت کیا :

کیا میری قوم مجھے یہاں سے نکال بھی دے گی؟“

ورقہ بن نوفل نے کہا:

ہاں اس لئے کہ ہر نبی کی تکذیب کی گئی ہے اسے ستایا گیا ہے اور ہجرت پر مجبور کیا گیا ہے۔“

یہ کہہ کر ورقہ نے فرطِ عقیدت سے آپ (ﷺ) کے سر مبارک پر تعظیمی بوسہ دیا۔ 

 

وحی کا انقطاع:۔

اس کے بعد وحی کا سلسلہ کچھ عرصہ کے لئے موقوف ہو گیا تو آپﷺ پریشان ہو گئے۔ حضرت خدیجہ الکبریٰ  رضی الله عنہاآپﷺ کی یہ پریشانی بھانپ گئیں اورفرمایا: 

کہ کیا آپﷺ یہ خیال کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بھلا دیا ہے ؟“

اس کے بعد آپﷺ غارِ حرا میں تشریف لے گئے۔ 

 

وحی کی تجدید:۔

 

اس کے بعد حضرت جبرائیل امین آپﷺ کے پاس یہ وحی لے کر آئے :

" قسم ہے چاشت کے وقت کی اور قسم ہے رات کی جب چھا جائے نہ تو تیرے رب نے تجھے چھوڑا ہے اور نہ وہ بیزار ہو گیا ہے یقیناً تیرے لئے بعد کا دور پہلے دور سے بہتر ہوگا۔ تجھے تیرا رب بہت جلد (انعام) دے گا اور تو راضی ہو جائے گا۔ کیا اُس نے تجھے یتیم پا کر جگہ نہیں دی؟ اور تجھے راہ بھولا پا کر ہدایت نہیں دی ؟ اور تجھے نادار پا کر تو نگر نہیں بنا دیا؟ پس یتیم پرتو بھی سختی نہ کیا کر اور نہ سوال کرنے والے کو ڈانٹ ڈپٹ کر اور اپنے

رب کی نعمتوں کو بیان کرتا رہ۔"

(سورة الضحیٰ،آیت1تا11)

 

اس وحی کے بعد آپﷺ کے دل کی کلی کھل گئی اور آپﷺ زیادہ ذوق و شوق سے حمد باری تعالیٰ میں مشغول ہو گئے۔ آپﷺ کے ذہن سے تفکرات مٹ گئے اور بے چینی کو قرار آ گیا۔

 

نماز کا حکم اور حضرت علی رضی اللہ کا قبول اسلام:۔

 

جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو نماز کا حکم دیا تو آپﷺ اور آپﷺ کی زوجہ محترمہ سیدہ خدیجہ رضی الله عنہا نے نماز پڑھنا شروع کر دی۔ اس زمانے میں حضرت علی المرتضی تو آپﷺ کی کفالت میں تھے۔ حضرت ابو طالب کثیر العیال تھے اور ان کی معاشی حالت بھی ان دنوں کچھ زیادہ بہتر نہیں تھی۔ اس لئے آنحضرت صلی علیہ وسلم نے حضرت عباس سے کہا کہ آیئے ہم دونوں مل کر ان کا کچھ ہاتھ بٹائیں اور ان کا بوجھ کم کریں۔ یہ فرما کر آپﷺ ان کے ساتھ اپنے چچا ابو طالب کے ہاں تشریف لے گئے ۔ آپﷺ نے حضرت علی کا ہاتھ تھام لیا اور حضرت عباس ، حضرت جعفر کو اپنے ہمراہ لےگئے۔

اس دوران ایک روز حضرت علی رضی اللہُ عنہ باہر سے آئے تو انہوں نے آپﷺ کو اور حضرت خدیجہ الکبریٰ  رضی الله عنہا کو نماز پڑھتے اور رکوع و سجود کرتے دیکھا ۔ حضرت علی رک گئے اور جب نماز ختم ہوئی

تو عرض کیا :

 

آپﷺ کس کو سجدہ کر رہے تھے؟“

 

آپﷺ نے فرمایا :

اے علی ، ہم اس اللہ کی عبادت کر رہے تھے جس نے مجھے نبوت عطا کر کے لوگوں کو حق کی طرف بلانے کا حکم دیا ہے۔ اے علی ! تم بھی الله وحده لا شريك كی عبادت کرو، میری رسالت کا اقرار کرو اور لات و منات اور دیگر دوسرے بتوں کو چھوڑدو، اس کے بعد آپﷺ نے قرآن کریم میں سے کچھ آیات کی تلاوت فرمائی ۔ کلام الہی نے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر تاثیر دکھائی اور انہوں نے فرمایا کہ وہ ایمان لانے سے پہلے اپنے والد بزرگوار سے مشورہ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر اس شب کو وہ نہایت بے چین رہے اور صبح کے وقت اپنے ایمان لانے کا اعلان فرما دیا اورفرمایا کہ اس معاملے میں مجھے کسی سے بھی مشورہ کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:

"اللہ تعالیٰ نے مجھے ابو طالب سے مشورہ کئے بغیر پیدا فرمایا ہے تو میں اس کی عبادت کیلئے اپنے باپ سے مشورہ کیوں کروں ۔"

یوں حضرت علی رضی اللہ عنہ نے بچوں میں سب سے پہلے حق کی دعوت پر لبیک کہتے ہوئے اپنے ایمان کااقرار کرنے کا شرف حاصل کیا۔

 

حضرت زید بن حارثہ رضی اللہُ عنہ کا قبول اسلام:۔

حضرت زید بن حارثہ حضرت خدیجہ الکبریٰ کے زرخرید غلام تھے جنہیں آپﷺ نےاپنا متبنیٰ بنالیا تھا۔ انہوں نے جب اسلام قبول کیا۔ اُس وقت نبی کریمﷺ کے پیروکاروں کی تعداد تین تک پہنچ گئی تھی۔ ان میں آپﷺ کیزوجہ محترمہ حضرت علی، اور حضرت زید بن حارث شامل تھے۔ اب رسول اکرمﷺ نے سوچا کہ قریش میں عام تبلیغ کا آغاز کس طرح کیا جائے؟ آپﷺ کو اس بات کا خدشہ تھا کہ قریش اپنے آباؤ اجداد کے دین اور بتوں کی پرستش کو آسانی سے

ترک نہیں کریں گے۔

 

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہۃ عنہ کا قبولِ اسلام:۔

 

آپﷺ کو جس نے پہلی ہی نظر میں امین و صادق، نیک سیرت و نیک دل ما نا وہ تھے، سیدنا ابو بکر بن ابی قحافہ آپﷺ کو بھی ان کے خلوص ، وفا اور صداقت پر پورا اعتماد تھا۔ اپنے گھر سے باہرسب سے پہلے سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے سامنے وحی کے نزول اور رسالت کے اعزاز سے لے کر ساری روداد بیان کی اور ایمان لانے کی دعوت دی۔ ایک ساعت رکے بغیر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے نبی کریمﷺ کی صداقت کی فوراً تصدیق کر ڈالی ۔

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ بھی مکہ کے اس محلہ میں رہتے تھے۔ جس میں حضرت خدیجہ بنت خویلد اور دوسرے بڑے بڑے تاجروں کی رہائش تھی۔ جب آنحضرتﷺ کا حضرت خدیجہ سے نکاح فرمانے کے بعد اس محلے میں منتقل ہو گئے تو آپﷺ اور حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ کے مابین دوستانہ تعلقات کا آغاز ہوا۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ آپﷺ سے دو سال اور چند ماہ چھوٹے تھے۔ ہم عمری، پیشے کے اشتراک طبیعتوں میں ہم آہنگی، قریش کے عقائد فرسودہ سے نفرت، قبیح عادات و رسومات سے انحراف یہ ایسے پہلو تھے، جنہوں نے دونوں کی دوستی کو پروان چڑھنے میں مدد دی۔ تاہم مؤرخین اور راوی اس بات میں اختلاف رائے رکھتے ہیں بعض کے نزدیک دونوں کی دوستی اسلام سے قبل تھی اور اسی بناء پر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے فوراً اسلام قبول کر لیا اور بعض کا کہنا ہے کہ ان کے تعلقات میں استواری اسلام کے بعد ہوئی ۔ حضرت عائشہ کیا فرماتی ہیں کہ قبول اسلام کے بعد حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہُ عنہ دین اسلام کی محبت میں مکمل طور پر آنکھیں بند کر کے آپﷺ کے نقشِ قدم پر چلنے لگے اور نبی کریمﷺ بھی صبح و شام ہمارے گھر تشریف لاتے اور والد محترم سے اسلام پھیلانے کیلئے صلاح مشورے کرتے۔

حضرت ابو بکررضی اللہُ عنہ کی تبلیغ سے ایمان لانیوالے صحابہ کرام:۔

اولین صحابه کرام حضرت عثمان بن عفان، حضرت عبدالرحمن بن عوف ، حضرت طلحہ بن عبید الله ، حضرت سعد بن ابی وقاص، حضرت زبیر بن عوام اور حضرت ابو بکر صدیق رضوان اللہ علیہم اجمعین ہی کی کوششوں سے دائرہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ بعد میں بھی حضرت ابو عبیدہ بن الجراح ہ اور اکثر دوسرے لوگ ان کی تبلیغ سے مسلمان ہوئے ۔

اہل مکہ میں سے جو لوگ ایمان لاتے وہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنے ایمان کا ظہار کرتے اور آپﷺ سے ضروری مسائل، عقائد و اعمال کی تعلیم حاصل کرتے مگر یہ لوگ قریش سے اپنے قبول اسلام کا حال پوشیدہ رکھتے۔ تا کہ مشرکین ان کے دُشمن نہ ہو جائیں ۔ وہ لوگ نماز کی ادائیگی کے لئے پہاڑیوں میں چلے جاتے اور وہاں چھپ کر نماز ادا کرتے تعلیم و تدریس کا سلسلہ بھی خفیہ طور پر ہی چلتا۔ اسی طرح مسلسل تین سال گزر گئے اور مسلمانوں کی تعداد میں روز بروز اضافہ ہونے لگا۔ اور اس دوران میں جو آیات نازل ہوئیں ان کی وجہ سے ان کے ایمان و استقلال اور اعتماد میں روز بروز اضافہ ہوتا گیا۔

 

اسلام کی جانب لوگوں کو مائل کرنے والی دو چیزیں تھیں۔ ایک تو پر کشش اور دل کو موہ لینے والا پیام اور دوسرے آپﷺ کی ذات مبارکہ اور اسوہ حسنہ ۔ آپﷺ سے ایک نہایت شیریں بیان ، عدل پسند ، ملنسار اور با اخلاق تھے۔ مساکین اور یتیموں کی دیکھ بھال آپﷺ کا شیوہ تھا۔ جب رات چھا جاتی تو آپﷺ عبادت الہی میں مشغول ہو جاتے ۔ آپﷺ کی ذات مومنین کے لئے ایک مینارہ نور اور مکمل ترین نمونہ تھی۔

 

یہی وجہ تھی کہ مشرکین کے تشدد کے خطرے کے باوجود بہت سے غریب اور بے بس لوگ بھی دائرہ اسلام میں داخل ہو گئے اور دین حق کے لئے انہوں نے ہر طرح کی تکالیف کا سامنا کیا اور قربانیاں پیشکیں۔

 

اہل مکہ کی خام خیالی:۔

آپﷺ کی دعوت کا ذکر مکہ کی گلیوں محلوں اور گھروں میں صبح و شام ہونے لگا۔ جن کے دلوں پر بدبختی کے تالے پڑے تھے وہ یوں کہنے لگے کہ اس دین کا بھی وہی حال ہوگا جو "قس" ، "امیہ " اور " ورقہ بن نوفل" کے دین کا ہوا۔ جس طرح دوسرے مذہبی راہنماؤں اور علماء کی محفلیں آج ویران پڑی ہیں یہ بھی ویسے ہی ویران ہو جائے گا یہ مسلمان پھر اپنے اصل دین بت پرستی کی طرف لوٹ آئیں گے۔ پھر ہبل اور لات جیسے دیوتا و عزیٰ جیسا غیرت مند معبود اور سب سے بڑھ کر اوصاف کا مالک جس کو قربانی کے خون میں نہلایا جاتا ہے ان کے قہر و غضب سے یہ لوگ بیچ نہ سکیں گے۔ مگر یہ اہل مکہ کے جاہل اور نادان لوگوں کی خام خیالی تھی کہ بچے ایمان پر دنیا کی کوئی طاقت غالب نہیں آسکتی۔ فتح و کامرانی صرف اور صرف سچائی کی صورت میں ملتی ہے۔

 

عام تبلیغ:۔

تین سال تک پوشیدہ طور پر تبلیغ کے بعد آپﷺ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ آپﷺ لوگوں کو کھلے عام دینِ حق کی دعوت دیں ۔ آپﷺ پر درج ذیل آیات نازل ہوئیں۔ 

 

ترجمہ: اور (اے پیغمبر!) تم اپنے قریب ترین خاندان کو خبر دار کرو، اور جو مومن تمہارے پیچھے چلیں ، ان کیلئے انکساری کے ساتھ اپنی شفقت کا باز و جھکا دو، اور اگر وہ تمہاری نافرمانی کریں تو کہہ دو کہ : جو کچھ تم کر رہے ہوں ، اُس سے میرا کوئی تعلق نہیں ۔“

(سورة الشعراء آیت 214تا 216)

 

ترجمہ: پس آپﷺ اس حکم کو جو آپﷺ کو کیا جا رہا ہے کھول کر سنا دیجئے اور مشرکوں سے منہ پھیر لیجئے ۔“

(سورة الحجر آيت 94)

 

قریش کی دعوت:۔

آپﷺ نے قریش کو اللہ تعالیٰ کا پیغام پہنچانے اور دعوت حق دینے کے لئے انہیں کھانے کی دعوت دی۔ اس موقع پر جب آپﷺ نے انہیں اللہ تعالیٰ کی توحید پر ایمان لانے اور صرف اسی کی عبادت کرنے کی دعوت دی تو ابولہب سیخ پا ہو گیا اور اس نے آپﷺ کے خطاب کے دوران ہی محفل میں مداخلت شروع کر دیی اور لوگوں کو بہکا کر اپنے ساتھ لے گیا۔ آپﷺ نے اس طرح کے ایک اور موقع کا اہتمام کیا،اور قریش کو اپنے گھر دعوت طعام پر بلا کر انہیں کھانا کھلایا اور اس کے بعد ان سے فرمایا :

"عربوں میں آج تک کوئی شخص مجھ سے بہتر دعوت لے کر نہیں آیا۔ یہ پیغام دنیا و آخرت کی بھلائی کا ہے اور اللہ تعالیٰ نے مجھے ارشاد فرمایا ہے کہ میں لوگوں کو اس کی

جانب بلاؤں ، آپ لوگوں میں سے کون میری اس دعوت پر لبیک کہتا ہے؟‘ یہ سن کر تمام لوگوں نے بے رخی کا مظاہرہ کیا اور آپﷺ کی باتوں سے منہ موڑ کر اپنے اپنے گھر کی راہ لی ۔ اس بھری مجلس میں تنہا حضرت علی ابن ابی طالب جو ابھی کم عمر ہونے کے باوجود ہمت وجاں نثاری کیلئے اٹھے اور عرض کیا:

"یا رسول اللہ ﷺ میں آپ کے ساتھ ہوں اور آپ سے تعاون کروں گا اور جو شخص آپ سے جنگ کرے گا میں اس سے جنگ کروں گا ۔"

اس پر بنو ہاشم کے افراد حضرت علی کی باتوں پر ہنستے ہوئے تمسخرانه انداز سے اپنے اپنےگھروں کو چل دیئے۔

 

کوہ صفا پر دعوت حق کا اعلان:۔

 

اس واقعہ کے بعد آپﷺ نے اعلانیہ تبلیغی حق کا کام شروع فرمادیا۔ ایک روز آپﷺنے کوہِ صفا پر کھڑے ہو کر با آوازِ بلند قریش کو پکارا۔ جب وہ آپ ﷺ کی پکار پر جمع ہو گئے تو آپﷺنے فرمایا:

"اے لوگو! اگر میں تم سے یہ کہوں کہ اس پہاڑ کے پیچھے دشمن کا ایک لشکر چھپا ہوا ہے جو تم پر حملہ کرنا چاہتا ہے تو کیا تم میری بات کا یقین کر لو گے ؟

قریش نے کہا:

 ہاں ہاں ! ہم اس پر ضرور یقین کر لیں گے کیونکہ ہم نے کبھی آپﷺ کو جھوٹبولتے نہیں سنا۔

اس پر آپ ﷺ نے فرمایا:

(اے لوگو ) میں تم لوگوں کو عذاب نازل ہونے سے محفوظ رکھنا چاہتا ہوں ۔اے بنو عبد المطلب ! اے بنو عبد مناف ! اے بنو زھرہ ! اے بنوتیم! اے بنو مخزوم ! اے بنو اسد ! سب غور سے سن لو۔ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنے رشتہ داروں کو آخرت کے عذاب سے آگاہ کرنے کا حکم دیا ہے۔ اگر تم لوگوں نے اللہ کی عبادت نہ کی اور یہ نہ کہا کہ اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو میری قرابت داری دنیا و آخرت میں تمہیں کوئی نفع نہ دے سکے گی۔

 

ابولہب کی جسارت:۔

اس پر ابولہب نے گستاخانہ انداز میں کچھ کہنا چاہا آپﷺ نے اُسے سمجھانے کی کوشش کی مگراس بد بخت نے از خود اپنی بدبختی کو آواز دیتے ہوئے کہا:

اس کی اس جسارت پر  آپﷺ کو پریشان کرتے ہوئے کہاتو نعوذ باللہ برباد ہو تو نے ہمیں اس کام کے لئے جمع کیا تھا؟۔

اس بد بخت کی اس جسارت پر آپﷺ کچھ پریشان ہوئے لیکن اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کع وحی کے ذریعے فرمایا:۔

 

ترجمه: "ابو لہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ گئے اور وہ ( خود ) ہلاک ہو گیا۔ نہ تو اس کا مال اُس کے کام آیا اور نہ اُس کی کمائی ۔ وہ عنقریب بھڑ کنے والی آگ میں جائے گا اور اُس کی بیوی بھی (جائے گی ) جو لکڑیاں ڈھونے والی ہے۔ اُس کی گردن میں پوست کھجور کی بٹی ہوئی رسی ہوگی ۔

 

(سورة اللهب ، آیت 1 تا 5)

 

اس کے بعد ابولہب اپنی تباہی و بربادی پر اللہ تعالیٰ کی مہر لگوا کر سب کو ساتھ لے کر چلا گیا۔ اس کے بعد ابولہب اور اہل مکہ کی تمام تدبیریں اور سازشیں ناکام ہوگئیں۔ جو انہوں نے لوگوں کو حلقہ بگوش اسلام میں آنے سے روکنے کے لئے کیں تھیں ۔ کوئی دن ایسا نہ گزرتا کہ کوئی نہ کوئی اسلام کی دعوت قبول کرتا اور اسلام کے مضبوط قلعہ میں داخل ہونے سے کسی کے دل میں تجارت کے برباد ہو جانے کا ڈر نہ تھا اور نہ ہی ان کا جذبہ ایمانی ان کو احکامات الہیہ کی تعمیل سے روکتا تھا اور نہ خرید وفروخت میں رکاوٹ ان کے تقویٰ اور خلوص میں کمی کر سکا۔ ان کی زندگی کا مقصد خوشی صرف اللہ تعالیٰ اور اُسکے رسولﷺ کے ہر حکم کی تعمیل کرنا تھا۔ آپﷺ کے فرمانبردار یہ حقیقت اچھی طرح جان گئے تھے کہ آپﷺ 

 

قریش کے شعراء:۔

ابولہب اور ابوسفیان جو مکہ و مکرمہ کے معززین میں شمار ہوتے تھے اور وہ شہر کی معیشت کے بھی مالک تھے۔ آپﷺ کی تبلیغ کو اپنے لئے ایک خطرہ سمجھ رہے تھے۔ اس لئے انہوں نے آپﷺ کی نبوت کی تکذیب اور آپﷺ کی تضحیک کے لئے اپنے دوست شاعروں کو مقرر کر دیا۔ جنہوں نے اپنے اشعار کے ذریعے آپﷺ پر حملے شروع کر دیئے ان شاعروں میں ابوسفیان بن حارث، عمرو بن العاص اور عبداللہ بن زبعری شامل تھے۔ یہ آپﷺ کے خلاف ہجوم میں یہ اشعار پڑھتے اور آپﷺ کی ( نعوذ باللہ ) تکذیب کرتے۔ مسلمانوں کی طرف سے بھی کچھ شعراء کرام نے ان حملوں کا بھر پور جواب دیا۔

 

معجزے کا تقاضا:۔

اس کے بعد ان لوگوں نے آپﷺ سے اُسی طرح کے معجزات جو حضرت موسی علی السلام اور حضرت عیسیٰ علیا سلام دکھا چکے تھے۔وہ معجزے طلب کیے۔

 

1ـ)کوہ ِ صفا اور مروہ کی پہاڑیاں سونے کی بن جائیں۔

2-)وحی کتابت شدہ صورت میں آسمان سے ہمارے سامنے نازل ہو۔ جس فرشتے جبریلؑ سے آپ ہمکلام ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں اُس فرشتے کے ساتھ ہمارے رو برو آپ گفتگو کریں۔

3-)مردوں کو زندہ کر کے دکھایا جائے ( حضرت عیسیٰ کی طرح)

 

4-)مکہ کے ارد گرد کے پہاڑوں کو ہٹا دیں تا کہ لوگوں کو کھلی آب وہوا نصیب ہو۔

5-)مکہ کے چاروں اطراف ایسے چشمے پھوٹ نکلیں جن کا پانی زمزم سے زیادہ خوشگوار ہو۔

ان کے جواب میں یہ قرآنی آیات نازل ہوئیں:۔

"آپﷺ فرما دیجئے کہ میں خود اپنی ذات کے لئے بھی کسی نفع اور نقصان کا اختیار نہیں رکھتا مگر جو اللہ چاہے،اور اگع میں غیب کی باتیں جانتا ہوتا تو اپنے لئے بہت سے منافع حاصل کر لیتا اور کوئی نقصان مجھ کو نہ پہنچتا میں تو مخص ڈرانے والا اور بشارت دینے والا ہوں ان لوگوں کو جو ایمان لائیں۔"

بت پرستی کی مذمت:۔

آپ ﷺلوگوں کو جنت کی بشارت دینے اور عذابِ جہنم سے ڈرانے کے لئے تشریف لائے تھے، یعنی اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو بشیر اور نذیر بنا کر بھیجا تھا۔ آپﷺ تو حید کے مبلغ تھے۔ لہذا آپﷺ نے بت پرستی کی مذمت کی اور لوگوں کو ایک اللہ پر ایمان لانے کی دعوت دی۔ قریش بتوں کے خلاف کوئی بات نہیں سننا چاہتے تھے۔ اس لئے وہ آپﷺ کے خلاف سازش کی آگ لئے اٹھ کھڑے ہوئے تھے ۔ اس سے قبل قریش صرف آپﷺ کی شان میں گستاخیاں کرتے تھے اور اُن کی مخالفت زبانی شرانگیزیوں سے آگے نہیں بڑھی تھی۔ لیکن اب جبکہ آپﷺ نے کھلم کھلا اُن کی عبادت پر تنقید شروع کر دی تھی ، ہیل ، لات اور دیگر بتوں کی بھر پور مذمت کی تو اس پر قریش تلملا اٹھے ۔ اب قریش آپﷺﷺ کے خلاف پوری طرح میدان میں آنے کا منصوبہ بنانے لگے وہ آپﷺ کو جانی نقصان پہنچانا چاہتے تھے۔ اُن کا خیال تھا کہ اگر حضرت محمدﷺ کامیاب ہو گئے اور لوگوں کے دلوں میں بت پرستی کے خلاف نفرت پیدا کر دی تو مکہ کا صدیوں پرانا مذہب منتشر ہو جائے گا۔ ان کے مذہب کا شیرازہ بکھر جائے گا مکہ کی مرکزیت ختم ہو جائے گی ان کے کاروبارِ تجارت کو نا قابل تلافی نقصان پہنچے گا اور مکہ کی معیشت تباہ ہو جائے گی ۔ اب اہلِ مکہ آپﷺ کے خلاف شدید محاذ آرائی کرنے کیلئے باہمی مشورے کرنے لگے۔

 

قریش کے وفد:۔

اگر چہ ابو طالب نے آپﷺ کا دین قبول نہیں کیا تھا۔ مگر اہل مکہ یہ بات اچھی طرح جانتے تھے۔ کہ آپﷺ کے خلاف کوئی کارروائی کرنے کا مطلب ابو طالب کے خلاف اعلان جنگ ہوگا اور انہوں نے قریش کو بتا رکھا تھا کہ محمدﷺ اُنکی حفاظت میں ہیں اور وہ اُن کی حفاظت کیلئے جنگ کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔

 

چناچہ ابو سفیان بن حرب کی قیادت میں قریش کا ایک وفد آپﷺ کے چچا ابو طالب کے پاس پہنچا اور کہا:

”اے ابو طالب ! آپ کے بھتیجے نے ہمارے بتوں کو بُرا بھلا کہا ہے اور ہمارے مذہب پر حملہ کیا ہے۔ ہمارے دیوتاؤں کی تضحیک کی ہے اور ہمارے باپ دادا کے عقیدے کی مذمت کی ہے یا تو آپ اپنے بھتیجے کو باز کر لیں یا پھر ان کی حفاظت سے دستبردار ہو جائیں۔ جس دین کی مذمت آپ کا بھتیجا کر رہا ہے وہ صرف ہمارا نہیں

آپ کا بھی دین ہے۔ ہمارے اس دین کی حفاظت آپ کا بھی فرض ہے، آپ اپنے بھتیجے کو سمجھا دیں کہ وہ اس طرح ہماری مخالفت نہ کرے ۔ حضرت ابو طالب نے ان لوگوں کی باتیں نہایت تحمل سے سنیں اور اس کے بعد نہایت نرمی سے گفتگو فر ما کر انہیں واپس بھیج دیا۔ اس دوران آپﷺ کی تبلیغ جاری رہی اور آپﷺ کے پیروکار دن بہ دن بڑھتے ہی چلے جارہے تھے۔

 

قریش کا دوسرا وفد:۔

 

قریش کا ایک وفد پھر آنحضرتﷺکے خلاف ابو طالب کے پاس پہنچا اس وفد کے ساتھ عمارہ بن ولید بن مغیرہ بھی تھا۔ جس کا شمار قریش کے وجیہہ ترین نوجوانوں میں ہوتا تھا انہوں نے کہا کہ آپ اسے بطور فرزند قبول کر لیں اور اسکے بدلے میں محمد صلی السلام کو ہمارے حوالے کر دیں۔ ابوطالب نے پھر نہایت پیار سے انہیں واپس کر دیا۔ ایک روایت کے مطابق جب یہ وفد عمارہ کو لے کر ابو طالب کے پاس پہنچا اوراپنا مقصد بیان کیا تو ابو طالب نے کہا: یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ میں تمہارے بیٹے عمارہ کو تو ناز و نعم سے رکھوں اور تم لوگ میرے

 

بھتیجے محمد کو ( نعوذ با اللہ ) قتل کر دو۔

یہ وفد بھی مایوس ہو کر واپس لوٹ گیا اور آپﷺاپنے تبلیغی مشن میں مشغول رہے۔

 

قریش کا تیسراوفد:۔

اس کے بعد قریش کا وفد تیسری مرتبہ ابو طالب کی خدمت میں پہنچا اور کہا: اے ابو طالب ! آپ ہمارے لئے معزز بزرگ ہیں۔ ہم نے آپ سے اپنے بھتیجے کو باز رکھنے کے لئے کہا لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا۔ ہم مذہب کی توہین نہیں کرنے دیں گے۔ یا تو آپ انہیں روک لیں یا پھر ہم آپ دونوں سے آخری دم تک جنگ کریں گے۔ اس طرح اُن کی اس طرح دشمنی مول لینا ابو طالب کے لئے آسان کام نہ تھا اور باوجود اس کے کہ انہوں نے اپنے بھتیجے کا دین قبول نہیں کیا تھا لیکن وہ اس کے برعکس اپنے بھتیجے کو تبلیغ اسلام سے روکنے کے لئے آمادہ نہ ہو رہے تھے۔“

 

انہوں نے آپﷺ کو بلایا اور کہا: اے محمد (ﷺ) ! اپنے آپ کو اور مجھے بچاؤ اور مجھ پر اتنا بوجھ نہ ڈالو جو میں اُٹھا نہ سکوں۔

آپﷺ نے اپنے چچا کی بات سنی تو چند لمحے کے لئے ساکت رہ گئے ۔ آپﷺ نے چند لمحے غور فرمایا۔ اس کے بعد فیصلہ کن انداز میں جو الفاظ آپﷺ کی زبان مبارک سے نکلے ان سے تاریخ کے ایک نئے دور کا آغاز ہو گیا اور انسانیت کو بُت پرستی ، آتش پرستی اور مظاہر پرستی کے چنگل سے نجات ملنے کی راہ نکل آئی۔

 

آپﷺ نے فرمایا:

 

"چچا جان! خدا کی قسم !اگر یہ لوگ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند بھی رکھ دیں تو میں دینِ حق کی تبلیغ سے باز نہیں آؤں گا خواہ اس راہ میں مجھے ہلاکت نظر آئے تب بھی میں پیچھے نہیں ہٹوں گا۔

آپﷺ کے اس پر عزم جواب سے ابو طالب کے دل میں ایک گونہ مسرت بھی پیدا ہوئی اور ان کی آنکھیں اپنے بھتیجے کے لئے اشک بار ہوگئیں مگر جب انہیں قریش کی دشمنی کا خیال آیا تو ایک مرتبہ پھر آپﷺ سے آکر فرمایا : اے بھتیجے! آپ اپنا کام جاری رھیں، میں آپ (ﷺ) کے ساتھ ہوں،کوئی آپ کا بال بھی بیکا نہیں کر سکتا ۔

اس کے بعد ابو طالب نے بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب کو آپ کے جواب سے آگاہ کر دیا۔ اس جواب کے بعد قریش کے دل میں انتقام کی چنگاریاں سلگنے لگیں ۔ اگر چہ شروع میں انہوں نے آپﷺ کو کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تھی مگر اب صورت حال بدل چکی تھی۔

 

قریش کا ظلم وستم:۔

اس کے بعد قریش نے مسلمانوں کو اسلام سے پھیرنے کے لئے ان پر ظلم وستم کا بازار گرم کر دیا۔ انہوں نے مسلمانوں پر وہ ستم ڈھائے اور ایسے ایسے ظلم توڑے کہ ان کے تصور سے ہی دل دہل جاتا ہے۔ مگر آفرین ہے ان مسلمانوں پر توحید پرستوں اور شمع رسالت کے پروانوں پر کہ انہوں نے ہر ظلم کو نہایت صبر و استقامت کے ساتھ برداشت کیا۔ حضرت بلال حبشی  رضی الله عنہ جو غلامی کی زنجیروں میں جکڑے ہوئے تھے جب مسلمان ہوئے تو انکے مالک نے ان پر ظلم و تشدد کی انتہا کر دی اور ان پر اس قدر گھناؤنا تشدد کیا کہ جس کا ذکر سنے والے کی روح کانپ کر رہ جاتی ہے ۔ انہیں چلچلاتی دھوپ میں گرم ریت پر لٹا دیا جاتا ، دہکتے کوئلوں سے داغا جاتا ،

جلتی ریت پر لٹا کر ان کے سینے پر بھاری کھردرا پتھر رکھ دیا جاتا اور ان سے کہا جاتا کہ وہ اسلام چھوڑ دیں۔ مگر ان کی زبان سے صرف ایک ہی لفظ نکلتا احد ، احمد اللہ ایک ہے، اللہ ایک ہے ۔ حضرت بلال اس تکلیف سے بے ہوش ہو جاتے مگر جب ہوش آتا تو پھر اللہ کی وحدانیت

کا ذکر ہی زباں پر ہوتا۔ کئی روز تک حضرت بلال  رضی الله عنہ کفار کے ظلم وستم کا نشانہ بنے رہے۔ اس موقع پر قریش کے ساتھ ہندہ زوجہ ابو سفیان بھی یہ تماشا دیکھنے کے لئے موجود ہوتی تھی۔ ایک دن حضرت ابوبکر صدیق کا ادھر سے گزرہوا، تو ان کی تکلیف اور آہ و پکار برداشت نہ کر سکے آپ نے انہیں خرید کر آزاد فرمادیا۔ روایت کے مطابق حضرت بلال علی کی آزادی کی جتنی قیمت حضرت ابو بکر صدیق  رضی الله عنہ نے اداکی اس وقت اس سے تین غلام خریدے جاسکتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق  رضی الله عنہ نے اور بھی کئی غلاموں کو قریش کے ظلم و ستم سے بچانے کے لئے خرید کر آزاد فر ما دیا۔

مکہ معظمہ میں اکثر کنیزیں اور غلام دینِ حق کی دعوت قبول کر لینے کی پاداش میں مشق ستم بنے ہوئے تھے اور ان کے آقا ان پر وحشیانہ تشدد کے پہاڑ توڑ رہے تھے۔ ان میں ایک کنیز حضرت عمر بن خطاب کی بھی تھی جسے اسلام لانے کے جرم میں تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ ابو جہل نے ایک کنیز کو اسلام چھوڑنے سے انکار پر اس کے سینے میں برچھا اُتار کر اسے شہید کر دیا۔ قریش نے بہت سے مظلوم مسلمانوں کو قریبی پہاڑیوں میں لے جا کر ظلم کا نشانہ بنایا تھا جب حضرت حمزہ  رضی الله عنہ وہاں پہنچے تو ان مظلوموں کی حالت دیکھ کر اشکبار ہو گئے ۔

 

آپﷺ پر کفار کی سختیاں:۔

ظلم وستم کا یہ سلسلہ صرف غلاموں تک ہی محدود نہ تھا۔ کفار مکہ اور قریش نے عام مسلمانوں پر بھی ظلم و تشدد کرنے میں کوئی کمی نہ چھوڑی۔ آپﷺ جو بنو ہاشم اور بنو عبد المطلب دو قبیلوں کی پناہ میں تھے۔ ان کے ظلم وستم سے محفوظ نہ رہ سکے ابولہب کی بیوی اُم جمیل نے یہ معمول بنالیا تھا کہ گھر کی نجاست اٹھا کر آپﷺ کے راستے میں پھیلا دیں۔ نبی اکرم ﷺ صبر وتحمل سے بغیر کچھ کہے گندگی کوراستے سے ہٹا کر گزر جائے۔

 

ابو جہل کی جسارت:۔

ایک مرتبہ آپﷺ خانہ کعبہ کے سامنے نماز پڑھنے میں مشغول تھے۔ کہ ابو جہل کو شرارت سوجھی اور اس نے اونٹ کی اوجھڑی منگوا لی اور جب آپﷺ سجدہ ریز ہوئے تو آپﷺ کی کمر مبارک پر رکھ دی جس کے بوجھ سے آپ ﷺ کے لئے اٹھنا مشکل ہو گیا ۔ جب اس بات کی اطلاع آپ  رضی الله عنہا کی صاحبزادی حضرت فاطمہ  رضی الله عنہا کو ہوئی تو وہ بھاگی ہوئی آئیں اور آکر آپﷺ کے اوپر سے یہ بوجھ ہٹا دیا۔

کفار نے اس کے علاوہ بھی آپﷺ کو ہر طریقے سے تنگ کیا ، ایذاؤں کی انتہا کر دی مگر آپﷺ نے اُف تک نہ کی اور اللہ تعالیٰ کے دین کی تبلیغ میں مگن رہے۔ کفار کی ایذا ئیں، تمسخر اور دشمنی آپﷺکو تبلیغ کے راستے سے نہ ہٹا سکیں ۔

اس کے علاوہ قریش کے شعرا آپﷺ کی ہجو میں مصروف تھے، قریش نے ایک شخص کو کہا کہ وہ ( نعوذ با الله ) آپﷺ کو شہید کر دے۔ 

کفار کی مسلسل اذیتوں اور تبلیغ اسلام چھوڑ دینے کی نوازشوں کے جواب میں آپﷺ نےایک بار پھر فرمایا:

 

"خدا کی قسم! اگر اہل مکہ میرے دائیں ہاتھ پر سورج اور بائیں ہاتھ پر چاند رکھ کر کہیں کہ حق کی دعوت کی تبلیغ ترک کردوں تب بھی میں اسے ترک نہ کروں گا خواہ اس میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔"

آپﷺ نے اپنی تبلیغ جاری رکھی اور مسلمانوں سے فرمایا کہ وہ سچے دل سے نیکی کی راہ پر چلتے رہیں ۔ اس سے ان کو دنیا میں بھی اس نیکی کا پھل ملے گا اور اس کے ثمرات آخرت میں بھی ملیں گے۔

 ترجمہ: پس جس نے ذرہ برابری کی ہوگی وہ اس دیکھ لے گا اور جس نے ذرہ برابر برائی کی ہو گی وہ اُسے دیکھ لے گا۔“

(سورة الزلزال آیت 7 تا 8)

 

حضرت حمزہ  رضی الله عنہ کا قبول اسلام:۔

آپﷺ کے ساتھیوں کی صداقت و استقامت سے متاثر ہو کر بنو ہاشم اوربنو عبد المطلب کی حمایت کا جذبہ اور زیادہ ہو گیا۔ ایک دن ابو جہل نے آپﷺ سے بد کلامی کی رسول اکرمﷺ جواب دیئے بغیر وہاں سے چلے گئے۔ حضرت حمزہ جو کہ آپکے چچا اور رضاعی بھائی بھی تھے۔ اُن کو شکار کا بہت شوق تھا۔ اُن کا یہ معمول تھا کہ شکار سے واپسی پر پہلے بیت اللہ کا طواف کرتے پھر گھر تشریف لے جاتے اُس روز حضرت حمزہ شکار سے واپس بیت اللہ میں طواف کی غرض سے آئے ۔ کسی نے راستہ ہی میں ابو جہل کی زیادتی کا پورا حال بتا دیا۔ حضرت حمزہ سیدھے کعبہ شریف پہنچے اور وہاں ابو جہل آلتی پالتی مارے بیٹھا شیخیاں بگھارنے میں مشغول تھا۔ حضرت حمزہ نے ابو جہل کے سر پر اتنی زور سے کمان ماری کہ اس کے سر سے خون بہنے لگا قبیلہ مخزوم کے لوگ اپنے سردار کی حمایت میں اُٹھ کر آگے بڑھے۔ مگر ابو جہل نے یہ کہہ کر کہ زیادتی کی پہل میری طرف سے ہوئی تھی اور معاملہ رفع دفع کر دیا اس کے بعد حضرت حمزہ نے آپﷺ پر ایمان لے آئے اور ایمان لانے کے بعد عرض کی:

 

"آج سے آپﷺ کی نصرت و حمایت میرے لئے میری جان سے زیادہ عزیز ہو گی۔

 

سفیر عتبہ بن ربیعہ:۔

آپﷺ اسلام کی دعوتی سرگرمیوں اور دین اسلام کی روز بروز بڑھتی ہوئی مقبولیت سے قریش پریشان ہو گئے۔ انہوں نے ہر طرح کا جبر و تشدد کر کے دیکھ لیا کہ آپ عملیاتی تعلیم کے ساتھی اسلام کو کسی طرح بھی چھوڑنے پر تیار نہیں اور اب وہ اعلامیہ نمازیں پڑھنے سے بھی نہیں ڈرتے ۔ قریش نے باہم مشورہ کے بعد عتبہ بن ربیعہ کو آپ ﷺ کی خدمت میں بھیجا عقبہ بن ربیعہ انتہائی

عالی نسب ہونے کے علاوہ بے حد فہم و فراست کے مالک مانے جاتے تھے۔ ان کے ذمہ یہ کام سونپا گیا۔  آپ ﷺ اس وقت کعبہ شریف میں  ایک کونے میں تنہا عبادت میں مشغول تھے ۔ ان کے پاس جائیں اور ان کو دعوت دینے سے دستبردار ہونے کے بدلے منہ مانگی دولت پیش کریں۔

 

عقبہ بن ربیعہ آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کی:

"اے میرے بھائی کے بیٹے ! ہمیں اعتراف ہے کہ آپ قریش میں عالی نسب ہیں لیکن آپ نے اپنی قوم کے اتحاد کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ میں آپ کے سامنے چند

تجاویز پیش کرتا ہوں ہو سکتا ہے ان میں سے کوئی ایک آپ قبول کر لیں ۔

 

اگر اس دعوت دین کا مقصد بہت سا مال جمع کرنا ہے تو ہم لوگ آپ ﷺ کے لئےاتنی دولت جمع کر سکتے ہیں کہ عرب میں آپﷺ سے زیادہ کوئی دولت مند نہ ہو گا۔

اگر آپﷺ کا یہ ارادہ ہو کہ آپ تمام عرب کے سردار بن جائیں تو ہم خوشی سے آپ کی سرداری و قیادت کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں۔

اگر آپ علمی بادشاہت چاہتے ہیں تو ہم کو یہ بھی منظور ہے۔

اگر آپ آسیب زدہ ہیں اور اس کے علاج کرانے سے معذور ہیں تو ہمیں فرمائیے ہم آپ ﷺ کے شفایاب ہونے تک معالج اور علاج کے تمام اخراجاتبرداشت کریں گے ۔"

آپﷺ نے اس کے سامنے سورۃ یوسف کی ابتدائی چند مندرجہ ذیل آیات کی تلاوت فرمائی:

"یہ اس کتاب کی آیتیں ہیں جو حق واضح کرنے والی ہیں ۔ ہم نے اس کو ایسا قرآن بنا کر اُتارا ہے جو عربی زبان میں ہے، تا کہ تم سمجھ سکو۔ اسے پیغمبر (ﷺ) ہم نے تم پر یہ قرآن جو وحی کے ذریعے بھیجا ہے اُس کے ذریعے ہم تمہیں ایک بہترین واقع سناتے ہیں جبکہ تم اس سے پہلے اس واقعے سے  بالکل بے خبر تھے ۔“

( سورۃ یوسف، آیت ۳۱)

 

جب آپﷺ تلاوت فرما رہے تھے عتبہ اپنی کمر پر دونوں ہاتھ رکھے حیرت سے سنتا ر ہا نظریں جلال و جمال نبوت پر جمائے سوچتا رہا کتنی عظیم ہے یہ ہستی جسے نہ مال و دولت کا لالچ ہے اور نہ ہی کسی دنیوی منصب کی خواہش حکومت اور فرمانروائی تو اس ہستی کی نگاہوں میں ایک تنکے کے برابر بھی نہیں ۔ عقبہ دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ کے بعد اس عظیم بزرگ و اعلیٰ ہستی کو آسیب زدہ کہنا اپنے لئے باعث ندامت محسوس کرنے لگا

 

پھر آپﷺ نے فرمایا :

"اے عتبہ میرا یہی جواب ہے“

یہ کہہ کر آپﷺ دوسری جانب چل دیئے۔

عتبہ آپﷺ کی ذات اقدس سے بے انتہا متاثر ہوا قرآن حکیم کی آیات اور اُن کی فصاحت و بلاغت پر غور کرتا ہوا اپنے ساتھیوں کے پاس گیا اور کہا:

محمد (کو مہلت دی جانی چاہیے اگر عرب ان پر غالب آگئے تو قریش کو خود بخود ان سے نجات مل جائے گی اور اگر عرب ان کے تابع ہو گئے تو فخر قریش کے لئے

 

ہوگا۔ لیکن قریش کو اس دانشور کا مشورہ پسند نہ آیا ان کی دشمنی مزید بڑھ گئی اور جبر و تشدد کی مہم اور تیز کر دی گئی۔

 

ہجرت حبشہ:۔

جب قریش کے مظالم مسلمانوں پر حد سے بڑھ گئے اور مسلمانوں کو نہ صرف تشدد کا نشانہ بنایا جانے لگا بلکہ کئی مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تو آپﷺ نے مسلمانوں کو حکم دیا کہ وہ قریش کے مظالم سے بچنے کے لئے عرب سے باہر جا کر پناہ گزیں ہو جائیں ۔

صحابہ کرام رضی اللہ نے عرض کی :

 

یا رسول اللہﷺ ہمیں پناہ کہاں مل سکتی ہے ؟“

 

آپ ﷺنے فرمایا: " حبشہ کی مسیحی حکومت میں تمہیں آرام مل سکتا ہے ۔“

اس بادشاہت میں کسی پر ظلم نہیں ہوتا وہ سچائی کی سرزمین ہے جب تک یہاں کے حالات ٹھیک نہیں ہوتے تب تک آپ لوگ ہجرت کر کے وہاں چلے جاؤ ۔

 

حبشہ کی طرف ہجرت:۔

 

حبشہ کی جانب کی جانے والی ہجرت اسلام کی پہلی ہجرت تھی۔ جو قافلہ 11 مرد اور 40 خواتین پر مشتمل نہایت راز داری سے مکہ سے ہجرت کر گئے۔ لیکن کچھ ہی مدت بعد وہاں یہ افواہ پھیلا دیگئی کہ قریش نے مسلمانوں پر تشدد کی پالیسی ترک کر دی ہے اور اب مسلمان وہاں بڑے امن اور چین سے رہ رہے ہیں ۔ یہ سن کر ہجرت کرنے والی عورتیں اور مرد واپس آگئے مگر یہاں کفار کا پہلے سے کہیں زیادہ ستم ان کامنتظر تھا۔

حبشہ کی جانب دوسری ہجرت:۔

اس مرتبہ پہلے والے مہاجر اور مزید مسلمان حبشہ کی جانب ہجرت کر گئے۔ اس دفعہ مردوں کی تعداد 80 اور خواتین کی تعداد 18 تھی اور اس کے علاوہ ان کے ساتھ بچے بھی تھے۔ اس دفعہ ہجرت کرنے والوں میں حضرت جعفر طیار بن ابی طالب بھی تھے۔

مسلمانوں کے پہلی بار حبشہ ہجرت کرنے کو ہجرۃ الاولی" کہا جاتا ہے۔ ہجرت کرنے والوں نے لق و دق صحرا عبور کیا اور گرتے اٹھتے حبشہ پہنچ گئے۔ قریش نے ان کا پیچھا بھی کیا مگر وہ ان کا سراغ نہ پاسکے کیونکہ صحرا میں چلنے والی ہوانے جانے والوں کے نقش مٹا دیئے تھے۔

 

اس ہجرت سے آپﷺ کا مقصد یہ تھا۔ کہ مسلمان کفار کے تشدد سے محفوظ ہو جائیں۔ تاہم قریش نے ان کو وہاں امن اور سکون سے رہتے دیکھا تو پھر بے چین ہو گئے اور انہوں نے اپنا ایک وفد قیمتی تحائیف کے ساتھ نجاشی کے دربار میں بھیجا اور اس سے مسلمانوں کی واپسی کا مطالبہ کیا۔ اس وفد میں قریش کے نمایاں افراد میں سے عمرو بن العاص اور عبداللہ بن ربیعہ بھی تھے۔ انہوں نے جا کر سب سے پہلے تو اُمراء کو تحائف دے کر اپنے حق میں کرنے کی کوشش کی ، پھر بادشاہ کے دربار میں پہنچ کر درخواست کی کہ ان کے کچھ لوگ اپنے آبائی دین سے پھر کر ان کے وطن میں آگئے ہیں اور اگر یہ لوگ عیسائی ہو جاتے تب بھی کوئی خاص بات نہیں تھی مگر ان لوگوں نے ایک ایسا دین ایجاد کیا ہے جسے ہماری عقلیں سمجھنے سے قاصر ہیں۔ لہذا ہم ان مفروروں کو واپس لے جانے کیلئے آئے ہیں۔ نجاشی کے درباریوں نے قریش کی تائید کی مگر نجاشی نے اصرار کیا کہ وہ پہلے ان لوگوں سے اس نئے دین کے بارے میں استفسار کرنا چاہتا ہے۔ لہذا مسلمانوں کو نجاشی کے دربار میں حاضر کیا گیا۔ نجاشی نے جب مسلمانوں سے ان کے مذہب کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا کہ وہ بھی عیسائیوں کی طرح ایک خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ اس پر قریش اور مسلمانوں میں بحث شروع ہوگئی اور قریش نے کہا کہ مسلمان حضرت عیسیٰؑ کواللہ کا بیٹا نہیں مانتے ۔ جب نجاشی نے مسلمانوں سے دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ حضرت عیسیٰؑ اللہ کے نبی تھے اور پاکیزہ انسان تھے۔

نجاشی نے مسلمانوں کو ان کے حوالے کرنے کا اعلان کر دیا۔ امیروں نے سپاہیوں کو اشارہ کیا جنہوں نے زنجیریں مسلمانوں کے قدموں کے پاس لا رکھیں اس پر حضرت جعفر طیار ہی نہ نہایت جوش سے آگے بڑھے اور بادشاہ سے کہا کہ کیا آپ ہمیں انہی ظالم لوگوں کے حوالے کر دیں گے؟ جن سے جانیں بچا کر ہم آپ کے وطن میں پناہ گزین ہوئے ہیں؟ کیا آپ قریش کے مطالبے پر عمل کریں گے انہی کی بات سنیں گے؟

 کیا مسلمانوں کو اپنی صفائی میں کچھ کہنے کا موقعہ نہیں دیا جائے گا۔ قریش نے ان کو چپ کرانے کی کوشش کی مگر نجاشی نے ہاتھ اٹھا کر کہا کہ آخر ان کی بات سن لینے میں حرج ہی کیا ہے۔ نجاشی کے اشارے پر زنجیروں والے سپاہی پیچھے ہٹ گئے اور حضرت جعفر طیار رضی الله عنہ نےنہایت پر اثر اور دلنشیں لہجے میں بولنا شروع کیا۔

اے بادشاہ! ہم لوگ جہالت میں مبتلا تھے، بتوں کو پوجتے اور مردار جانوروں کا گوشت کھاتے تھے۔ ہم رحم سے نا آشنا اور صلہ رحمی سے بے نیاز تھے۔ شہوانی خواہشات کی کھلے عام تکمیل میں ہمیں کوئی عار نہیں تھا۔ ہمیں پڑوسیوں کے حقوق کا کوئی شعور نہیں تھا۔ ہم میں سے ہر ایک کمزوروں کے مال پر قبضہ جمانے کو باعث فخر سمجھتا تھا۔ ہم لوگ ان ابتر حالات میں زندگی بسر کر رہے تھے کہ یکا یک رحمت خداوندی کو جوش آگیا اور اس نے ہم پر نظر کرم فرمائی اور ہمارے درمیان اس ہستی کو نبی مبعوث فرمایا، جن کی خاندانی شرافت اور نیکی کے ہم پہلے ہی قائل تھے۔ انہوں نے ہمیں حکم دیا کہ ہم جوں کو پوجنا چھوڑ دیں ، شرک سے باز آجائیں اور صرف اللہ وحدہ لاشریک کی عبادت کریں۔ نیک عورتوں پر بہتان نہ لگائیں، ہمسایوں اور قیموں کی خبر گیری کریں ۔ ہم نے اپنے آباء کا دین یعنی بت پرستی ترک کر دی اور خدائے واحد پر ایمان لاکر اس کی عبادت میں مشغول ہو گئے یہی ہمارا جرم اور یہی ہمارا قصور ہے ، جس کی پاداش میں ہمارے اپنوں ہی نے ہم پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑ ڈالے اور جب ہم یہاں آ کر سکھ کا سانس لینے لگے تو یہ لوگ یہاں بھی چلے آئے ہیں تا کہ ہمیں واپس لے جا کرپھر مشق ستم بنا سکیں ۔ اللہ کے رسول ﷺ نے ہمیں حکم دیا کہ ہم سچ بولیں ، انہوں نے ہمیں امانت ، دیانت حقوق العباد ، صلہ رحمی اور انصاف کی تعلیم دی۔ انہوں نے ہمیں غارت گری پخش کلامی اور بہتان طرازی سے منع فرمایا ، ہم نے ان کی تعلیمات پر لبیک کہا۔ انہوں نے ہمیں حکم فرمایا کہ ہم یتیم کے مال پر قبضہ کر کے اس کے حقوق غصب نہ کریں، انہوں نےہمیں نماز پڑھنے ، روزہ رکھنے اور زکوۃ دینے کا حکم فرمایا، ہم نے ان کی تعلیمات پر عمل کیا۔ ہم نے ان کی رسالت کا اقرار کیا ، ان پر ایمان لائے ، اور اللہ کے احکام پر عمل پیرا پر ہو گئے اور یہ لوگ ہمارے دشمن بن گئے ۔

 

اے بادشاہ! ان لوگوں نے ہمیں اس دین کے قبول کرنے کی سزا یہ دی کہ ہم پر تشد داور ظلم وستم کی انتہا کر دی، ہمیں ہر طریقے سے اس دین سے پھیرنے کی کوشش کی ، ان لوگوں نے ہمیں بت پرستی کی طرف راغب کرنے کے لئے ہر حربہ اختیار کیا اور ہم سے مطالبہ کیا کہ ہم پھر سے انہی مذموم کاموں میں مشغول ہو جا ئیں جنہیں ہم چھوڑ چکے تھے۔ ہم نے ان کا ہر ظلم و ستم سہنا برداشت کیا لیکن اپنے ہادی برحق محمد صلی الی ایم کا دامن چھوڑ نا پسند نہ کیا۔ پھر جب ہم نے ان کے مظالم سے تنگ آ کر اپنے وطن عزیز سے ہجرت کرنے کا ارادہ کیا تو ہماری نگاہیں آپ کے وطن پر پڑیں اور ہمیں امید پیدا ہوئی کہ آپ کے وطن میں ہم محفوظ رہیں گے کیونکہ آپ ایک انصاف پسند اور رعایا پرور بادشاہ ہیں۔ مگر اے بادشاہ ! یہ لوگ یہاں بھی پہنچ گئے اور آپ سے ہماری واپسی کے مطالبے کے ساتھ عیاری کرنے لگے۔"

حضرت جعفر طیار  رضی الله عنہ کی پر اثر تقریر نے نجاشی پر خاطر خواہ اثر کیا اور اس نے حضرت جعفر طیار ہی  سے کہا کہ وہ اسے اس کلام کا کچھ حصہ سنائیں جو ان کے نبی پر اللہ کی طرف سے نازل ہوا ہے۔ اس

پر حضرت جعفر طیار رضی الله عنہ نے سورہ مریم کی ابتدائی آیات کی تلاوت فرمائی:

 

فَأَشَارَتْ إِلَيْهِ قَالُوا كَيْفَ نُكَلِّمُ مَنْ كَانَ فِي الْمَهْدِ صَبِيًّا قَالَ إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ لهُ الَّتِي الْكِتَبَ وَجَعَلَنِي نَبِيًّا وَجَعَلَنِي مُبْرَكًا أَيْنَ مَا كُنتُ ن وَأَوْطَنِي بِالصَّلوةِ وَالزَّكوةِ مَا دُمْتُ حَيًّا وَبَرَّا بِوَالِدَتِي ، وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا وَالسَّلْمُ عَلَى يَوْمَ وُلِدْتُ وَيَوْمَ أُمُوتُ وَيَوْمَ

ابْعَثُ حَيًّا۔

ترجمه " مریم نے اپنے بچے کی طرف اشارہ کیا ۔ سب کہنے لگے کہ بھلا ہم گود کے بچے سے باتیں کیسے کریں؟ بچہ بول اٹھا کہ میں اللہ کا بندہ ہوں اُس نے مجھے کتاب عطا فرمائی اور مجھے اپنا پیغمبر بنایا ہے اور اُس نے مجھے با برکت کیا ہے، اور اسی نے مجھے نماز اور زکوۃ کا حکم دیا ہے۔ جب تک بھی میں زندہ رہوں اور اس نے مجھے اپنی والدہ کا خدمت گزار بنایا ہے اور مجھے سرکش اور بد بخت نہیں کیا اور مجھ پر میری پیدائش کے دن اور میری موت کے دن اور جس دن کہ میں دوبارہ زندہ کھڑا کیا جاؤں گا سلام ہی سلام ہے۔"

 

(سورة مريم آیت 29 33)

 

جب حضرت جعفر نے تلاوت ختم فرمائی تو درباری بے ساختہ پکارا ٹھے:

بخدا مسیح علی السلام اور آپ کے رسول ﷺ کی تعلیمات کی بنیاد ایک ہی ہے ۔"

اس کی تائید نجاشی نے بھی کی اور عمر و بن العاص سے کہا:

"آپ لوگ واپس جا سکتے ہیں، میں ان لوگوں کو آپ کے حوالے نہیں کر سکتا ۔“

 اس پر قریش دربار سے چلے گئے مگر دوسرے دن عمرو بن العاص نے بادشاہ کے پاس حاضر ہو کر کہا کہ یہ لوگ حضرت عیسی علیہ السلام کے بارے میں غلط باتیں کہتے ہیں اور انہیں خدا کا بیٹا تسلیم نہیں کرتے اور نیزکنواری مریم کے بارے میں بھی ان کا عقیدہ درست نہیں ہے۔ نجاشی نے حضرت جعفر کو بلوا کر دریافت کیا تو انہوں نے فرمایا کہ ہمارے رسول پاک ﷺ کا ارشاد مبارک ہے:

 

"عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بندے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو رسالت کا منصب عطا کیا اور وہ اللہ کی روح اور اس کے کلمہ کے ملقب ہیں جو اللہ نے حضرت مریم پر القا فر مایا۔"

یہ سن کر بادشاہ نے زمین پر ایک لکیر کھینچ کر کہا:

 

"اے جعفر! میرے اور تمہارے مذہب میں اس لکیر سے زیادہ فرق نہیں ہے۔

بعض روایات کے مطابق نجاشی نے زمین سے ایک تنکا اٹھایا اور کہا: 

"جو کچھ آپ نے کہا ہے اس میں اس تنکے کے برابر بھی مزید اضا فہ نہیں کیا جا سکتا ۔“ 

اس گفتگو کے بعد نجاشی اور بھی خوش ہوا کہ مسلمان ان کے نبی ( حضرت عیسی علی السلام ) کی تکریم کرتے ہیں اور ان کی رسالت کی صداقت کو تسلیم کرتے ہیں ۔ اب مسلمان اس کے ملک میں نہایت امن اورچین سے رہنے لگے۔ اس دوران ایک مرتبہ پھر اس افواہ پر کہ مکہ میں اب کفار نے مسلمانوں کی ایذا رسانی سے ہاتھ کھینچ لیا ہے اور مسلمان امن میں ہیں، یہ لوگ واپس آگئے مگر جب مکہ میں وہی پرانا رنگ اور ڈھنگ دیکھا تو پھر حبشہ ہجرت کر گئے ۔ یہ ہجرت نہ صرف ان کے لئے کفار سے امان کا باعث ثابت ہوئی بلکہ عیسائیوں کو بھی اسلام کے بارے میں جانے کا موقع ملا۔

 

حضرت عمر فاروق کا قبول اسلام:۔

عمر بن خطاب جب پینتیس سال کے درمیان تھے تو آپ قوی ہیکل، پرشکوه،سخت غصہ والے، جام و سبو کے رسیا اور اپنے اہل اقارب پر بہت ہی شفیق اور مہربان تھے۔ ان کا شمار قریش کے ان افراد میں تھا جن کے ہاتھوں مسلمانوں کو اذیتیں پہنچیں۔ عمر بن خطاب کو مسلمانوں کا حبشہ کی طرف ہجرت کرنا ناگوار تھا۔ اہل مکہ اور قریش آپ ﷺ کی ذات بابرکت اور رحمت کو ( نعوذ باللہ ) اس کے الٹ سمجھ کر تلملا رہے تھے۔ ایک دن آپﷺ صفا پہاڑی کے ساتھ ایک مسلمان کے گھر میں حضرت حمزہ  رضی الله عنہ، حضرت علی بن ابی طالب  رضی الله عنہ اور حضرت ابو بکر صدیق بن قحافہ  رضی الله عنہ کے ساتھ تشریف فرما تھے۔ اس اجتماع کی خبر سے حضرت عمر بن خطاب بے حد مشتعل ہو گئے اور انہوں نے آپﷺ کو قتل کرنے کا ارادہ کر لیا، تا کہ قریش کے باہم جھگڑے ہمیشہ کے لئے ختم ہو جائیں اور حضرت محمد ﷺکی دعوت پر جن لوگوں نے بتوں کی پرستش چھوڑی ہے وہ سلسلہ خود بخود ختم ہو جائے گا۔ حضرت عمر بن خطاب ہاتھ میں ننگی تلوار لئے تیز تیز قدموں کے ساتھ اُس مکان کی طرف جارہے تھے کہ راستہ میں نعیم بن عبد اللہ سے ملاقات ہو گئی ، جن کا تعلق ان ہی کے خاندان سے تھا۔ وہ ان کے ارادے کو سمجھ گئے اور اُن کے پوچھنے پر حضرت عمر بن خطاب نے بھی صاف صاف اپنا ارادہ ظاہر کر دیا۔ جواباً نعیم بن عبد الله نے کہا:

 

"عمر! تم کسی دھو کہ میں مبتلا ہو؟ اگر حضرت محمد ﷺ تمہارے ہاتھ سے قتل ہو گئے تو عبد مناف والے تم کو زندہ نہ چھوڑیں گے ۔ پہلے تم خود اپنے گھر کی تو خبر لو ، تمہارے اپنے کتنے رشتہ دار مسلمان ہو چکے ہیں ۔"

 

نعیم بن عبد الله  رضی الله عنہ خود بھی اسلام قبول کر چکے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب کی ہمشیرہ فاطمہ اور ان کے شوہر سعید بن زید رضی اللہ عنہ بھی مشرف بہ اسلام ہو چکے تھے۔ حضرت عمر بن خطاب یہ سب سن کر واپس اپنے گھر کی طرف چل دیئے ۔ گھر پہنچے تو تلاوت قرآن پاک کی آواز سنی۔ اُن کی ہمشیرہ نے قدموں کی آہٹ سنی تو قاری کو الگ کر دیا اور صحیفہ چھپا دیا۔ حضرت عمر بن خطاب نے دریافت کیا، یہ آواز کیسی تھی جو میں نے سنی ہے؟

 دونوں نے بات ٹال دی ۔ حضرت عمر بن خطاب کے اصرار کے باوجود انہوں نے اعتراف نہ کیا۔ مگر حضرت عمر بن خطاب نے جلال میں آکر کہا کہ میں نے سب سن لیا ہے تم دونوں محمد (ﷺ) کا دین قبول کر چکے ہو۔ یہ کہتے ہی پہلے تو وہ حضرت سعید بن زید پر برس پڑے اور ان کو زود و کوب کرنا شروع کر دیا۔ فاطمہ اپنے شوہر کو بچانے کے لئے آگے ہوئیں تو حضرت عمر بن خطاب نے ان کو بھی لہو لہان کر دیا۔

 دفعتاً دونوں پکار اٹھے اور کہا جاؤ ہم مسلمان ہو چکے ہیں جو چاہے کر لو اب یہ نعمت ہم سے کوئی نہیں چھین سکتا۔ مگر جب حضرت عمر بن خطاب نے بہن کے سر سے بہتا ہوا خون دیکھا تو دل پسیج گیا اور بہن کی محبت کا جذ بہ جاگ اٹھا اور نرم پڑ گئے ، پھر کہا:

ذرا مجھے بھی سناؤ تم لوگ کیا پڑھ رہے تھے۔ جب انہوں نے تلاوت شروع کی تو حضرت عمر بن خطاب پر رقت طاری ہو گئی۔ رُوح و بدن پر آیات کا ایسا اثر ہوا کہ آنسوؤں کی جھڑی بندھ گئی ، ندامت سے سر جھکا لیا۔ اس کیفیت میں حضرت عمر بن خطاب اُس گھر کی جانب چل دیئے جس گھر میں وہ اس برگزیدہ و بلندتر ہستی حضرت محمد ﷺ کو قتل کرنے کی غرض سے داخل ہونا چاہتے تھے لیکن اس وقت وہ خود اپنی تمام شیطانی عادات کو قتل کر کے آپ ﷺ کی خدمت میں سرنگوں کھڑے ہو گئے۔ پرنم آنکھوں اور تھر تھراتے ہونٹوں سے دل کی گہرائیوں سے نکلی ہوئی آواز کے ساتھ کلمہ طیبہ پڑھا اور رسول اکرم ﷺ اور خالقِ کا ئنات کے ہر حکم کی تعمیل کا عہد وفا باندھ لیا۔

حضرت حمزہ  رضی الله عنہ کے بعد حضرت عمر بن خطاب کے اسلام لانے کے بعد اہل ایمان کی ہمت

میں اور اضافہ ہو گیا۔ حضرت عمر فاروق  رضی الله عنہ کے قبول اسلام سے قریش کی صفوں میں شگاف پڑ گیا۔ تب سے مسلمانوں اور قریش کا موقف بدل گیا۔ قریش کو اپنے سیاسی اقتدار کے زوال کا خطرہ لاحق ہو گیا اور مسلمانوں کی مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ ہجرت کے اسباب نے محمد ﷺ کی کامیابی کی راہ ہموار کر دی جس پر گامزن ہو کرآپ ﷺ مسلم سیاسی اقتدار سے بھی بہرہ مند ہو گئے ۔

 

(جاری ہے)

 

 
تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

حضورؐ

    "ننھے حضورؐ اور اُن کا بچپن" جب مکہ پر ابرہہ حبشی نے چڑھائ کی،تو اس وقت حضرت عبد المطلب کی عمر تقریباً ستر سال تھی اور انکے صاحبزادے حضرت عبد اللہ کی…

مزید پڑھیں
مسلمانوں کی مقدس ترین جگہ مکہ معظمہ ،میں حجرت ابراہیمؑ کی آؐد کی تاریخ۔

مکہ مکرمہ کا محل وقوع اور اسکی تاریخ۔

مزید پڑھیں
حضرت محمدؐ کی پیدائیش سے لےکر شادی تک کی مکمل تاریخ۔

حضرت عبد اللہ کا عقد:۔ جب مکہ پر ابر ہہ  نے چڑھائی کی تو اس وقت حضرت عبدالمطلب کی عمر تقریباً ستر سال تھی اور ان کے صاحبزادے حضرت عبداللہ کی عمر چوبیس برس تھی ۔ آپ نے اُن کی…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں