/ تاریخِ اسلام / بنو عباس

Abbasid Caliph Harun Al Rashid History In Urdu

عباسی خلافت کے سب سے مشہور ترین خلیفہ"ہارون الرشید" کی زندگی پر ایک تاریخی نظر۔ 

 

"ہارون الرشید" نے تیس سال سے زائد مدت تک خلافت کی ذمہ داری انجام دی اور اپنی اچھی سیرت اور حسن انتظام کے ذریعہ مملکت اسلامیہ کو ترقی اور خوشحالی کی شاہراہ پر گامزن کر دیا۔ علمی، سیاسی، معاشی، تمدنی غرض ہر لحاظ سے اوج کمال پر پہنچے ہوئے اس عہد کو بعض مورہ خین نے "عہد عروس“ قرار دیا ہے۔

"پانچویں عباسی خلیفہ ہارون الرشید"

"ہارون الرشید" کے والدمحمد بن منصور کی خواہش تھی کہ ان کا بیٹا ہارون، جسمانی اعتبار سے بھی مضبوط اور توانا ہو، چنانچہ ماہر اساتذہ نے ہارون کو بچپن ہی سے گھڑ سواری اور تیر اندازی کی تعلیم دی۔ نیزے کی آنی سے کام لیناور تلوار چلانا سکھایا۔ ان تمام فنون کی تعلیم ہارون نے فوجی افسران سے حاصل کی۔ بچپن سے ان پر مشقت کھیلوں میں حصہ لینے کے نتیجے میں ہارون ایک خوش قامت، تندرست اور توانا جوان بن کر ابھرے۔ دس سال کی عمر میں ان کی مہارت کا عالم یہ تھا کہ آپ منہ زور گھوڑے کو آسانی سے قابو کر لیا کرتے تھے۔

ذی الحجہ ۱۵۸ھ / اکتوبر ۷۷۵ء میں خلیفہ وقت ابو جعفر منصور کا انتقال ہو گیا۔ ہارون، جن کی عمر اس وقت دس برس تھی، اپنے دادا کی وفات پر سب سے زیادہ روئے، کیونکہ دادا انہی سے زیادہ محبت کرتے تھے۔ منصور کے بعد ہارون کے والد محمد بن منصور خلیفہ بنے جن کو مہدی کا لقب دیا گیا۔ خلیفہ بننے کے بعد مہدی نے جب فریضہ حج ادا کیا تو ہارون بھی ان کے ساتھ تھے۔ یہ ہارون کا پہلا حج تھا۔ اس سفر میں ہارون کی تربیت اور رہنمائی کے لیے خلیفہ مہدی نے ایک قابل شخص "ابان بن صدقہ" کو مقرر کیا تھا۔ ابان بن صدقہ نے ہارون کو حج کے مناسک کی تعلیم دی اور جہاں وہ گئے وہاں کی تاریخ سے انہیں باخبر کیا۔ ۱۴ سال کی عمر میں ہارون نے اس مبارک سفر سے بہت کچھ حاصل کیا۔

سولہ سال کی عمر میں ہارون کو پہلی بار ایک بڑی جنگ میں حصہ لینے کا موقع ملا اور وہ بھی اس شان سے کہ رومیوں کے خلاف ہونے والی اس جنگ میں اسلامی فوج کی قیادت ان ہی کو کرنی تھی۔ اس جنگ میں ہارون کی مدد کے لیے بڑے منجھے ہوئے ماہرین جنگ موجود تھے۔ ہارون فوج لے کر روانہ ہوئے اور حدود روم میں ایک بڑے قلعہ "سمالو" کا محاصرہ کر لیا۔ جنگ شروع ہو گئی اور محاصرہ ۳۸ دن تک جاری رہا۔ قلعہ والوں نے بھوک پیاس سے تنگ آکر ہتھیار ڈال دیے۔ ہارون جزیہ اور مال غنیمت لے کر فاتحانہ شان سے لوٹ آئے۔

"بازنطینی رومیوں کے خلاف ہونے والی جنگ جس میں ہارون الرشید نے حصہ لیا تھا"

کچھ عرصے بعد ہارون کے والد نے فیصلہ کیا کہ ہارون کی شادی ان کی چچا زاد بہن زبیدہ سے کر دی جائے۔ زبیدہ کا اصل نام امتہ العزیز تھا۔ زبیدہ نہایت خوبصورت ، دراز قد اور گھنے بالوں والی خاتون تھی۔ زبیدہ بہت اچھی خاتون تھیں، انہوں نے قرآن پاک پڑھا اور اس کا بڑا حصہ حفظ کر لیا تھا۔ ادب کی تعلیم حاصل کی۔ سیرت و تاریخ پر ان کی وسیع نظر تھی۔ وہ نماز اور روزے کی پابند تھیں، اللہ سے ڈرنے والی اور نیکی کی طرف مائل تھیں۔

جس وقت بغداد میں ہارون کی شادی کے انتظامات ہو رہے تھے اور شہر میں جشن کا سا ماحول تھا، اسی وقت ایک فوجی سردار عبد الكبير بن عبد الحمید نے روم کی سرحد پر حملہ کر دیا۔ ان کے ہاس  صرف تین ہزار سوار تھے۔ رومیوں نے انہیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ اس پسپائی کی خبر سن کر خلیفہ مہدی نے حکم دیا کہ رومیوں کے  خلاف زبر دست جنگ کی تیاری کی جائے۔ چنانچہ ایک لاکھ سپاہیوں کا لشکر تیار کیا گیا۔ ہر دستے کا اپنا مخصوص شناختی پرچم تھا۔ لشکر کا سالار ایک نہایت اہل اور قابل ترین ماہر جنگ یزید بن مزید شیبانی کو بنایا اور ہارون کو لشکر کا سپہ سالار اعظم مقرر کیا گیا۔ہارون کے لیے یہ ایک بڑی آزمائش تھی اور ان کی نو بیا ہتی بیوی زبیدہ کے لیے اس سے بھی زیادہ سخت، لیکن وہ جہاد کی اہمیت کو سمجھتی تھیں۔ انہوں نے پر نم آنکھوں کے ساتھ اپنے شوہر کو الوداع کہا۔

جمادی الآخر ۱۶۵ھ / جنوری ۷۸۲ ء میں ہارون لشکر لے کر روانہ ہوئے۔ روم کی سرحد پر پہنچ کرآپ نے کئی علاقے فتح کیے۔ پھر ہارون قسطنطنیہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس زمانے میں روم پر ملکہ آئرین (ایرینی ) حکمراں تھی جو نو عمر وارث تخت شہزادہ قسطنطین سادس کی ماں تھی۔ ملکہ آئرین نے مسلم فوج کی زبر دست طاقت دیکھی تو صلح کی بات چیت شروع کر دی اور ہر سال جزیہ دینے کی پیشکش کی۔ ہارون نے یہ پیشکش منظور کرلی۔ مال غنیمت اور جزیہ کی رقم کے ساتھ محرم ۱۲۶ھ / اگست ۷۸۲ءمیں وہ فتح کے پرچم لہراتے بغداد لوٹے تو ان کا والہانہ خیر مقدم کیا ا گیا۔ فضا تکبیر کے نعروں سے گونج رہی تھی۔ لوگ فاتح لشکر پر پھول بر سا رہے تھے۔ ہارون کی والدہ خیز راں قصر خلافت کی کھڑکی سے عوام کا جوش و خروش دیکھ رہی تھیں اور ہارون کی شریک زندگی زبیدہ ایک کمرے میں بیٹھی آنے والے لمحات کے تصور میں کھوئی ہوئی تھیں۔ ان کا محبوب شوہر آٹھ ماہ کے جان لیوا انتظار کے بعد ان کی آنکھوں کو ٹھنڈک بخشنے کے لیے آگیا تھا۔

'وہ جنگ جس میں رومیوں کو عباسیوں کے ہاتھوں شکست ہوئی تھی"

خلیفہ مہدی اپنے ایک بیٹے موسیٰ کو ولی عہد نامزد کر چکے تھے، رجب 166ھ / فروری 783ءمیں انہوں نے ہارون کو ولی عہد ثانی نامزد کر دیا۔ اس موقع پر انہوں نے ہارون کو رشید کا لقب دیا۔ قبل ازیں 165ھ / 781ء میں مہدی انہیں مشرقی علاقے کا گورنر مقرر کر چکے تھے۔ مہدی 169ھ / 785 و تک خلیفہ رہے پھر ان کے بیٹے موسیٰ نے زمام اقتدار سنبھالی۔ موسیٰ کا لقب ہادی تھا۔ وہ صرف ایک سال تین ماہ خلیفہ رہے اور داعی اجل کو لبیک کہا۔ 15ربیع الاول 170ھ / 14 ستمبر 786ء کی وہ رات اس اعتبار سے نہایت منفرد ہے کہ اس رات ایک خلیفہ یعنی بادی کا انتقال ہوا۔ اسی رات دوسرے خلیفہ یعنی ہارون نے امور مملکت سنبھال لیے اور یہی وہ رات ہے جب ایک تیسرے خلیفہ یعنی مامون الرشید کی پیدائش عمل میں آئی۔ مامون کا نام عبد اللہ تھا، ان کی والدہ ایک کنیز تھیں جنہیں ہارون نے اپنے حرم میں داخل کر لیا تھا۔ بارِ خلافت سنبھالنے کے بعد ہارون بغداد پہنچے، جہاں ان کا زبر دست خیر مقدم ہوا۔ نماز کا وقت آیا تو ہارون نے جامع مسجد میں نماز کی امامت کی۔ شوال 170ھ / اپریل 787ء میں زبیدہ بھی ایک لڑکے کی ماں بن گئیں جس کا نام محمد رکھا گیا۔ یہی محمد بعد میں امین کے نام سے خلیفہ تھے۔ "ہارون الرشید" نے اپنی خلافت کے پہلے ہی برس حج بیت اللہ کا ارادہ کیا۔ حج سے واپس ہوئے تو انہوں نے امور مملکت کی طرف با قاعدہ توجہ دی اور پوری مملکت کا جائزہ لے کر مکہ، مدینہ، طائف، کوفہ ، خراسان، آرمینیا، جزیرہ اور شمالی افریقہ کے انتظامی عہدوں پر دور رس تبدیلیاں کیں۔

 

بغداد کی تعمیر دوسرے عباسی خلیفہ ابو جعفر منصور کے ہاتھوں مکمل ہوئی تھی، ہارون نے اسے اوج کمال تک پہنچا دیا۔ اس زمانے میں بغداد دنیا کا سب سے زیادہ ترقی یافتہ اور متمدن شہر سمجھا جاتا تھا۔ ہارون نے بحیرہ روم کے ساحل پر شہر طرطوس کو آباد کیا۔ روم کی سرحد پر کئی شہر اور قلعے تعمیر کروائےاور بہت سے پل تعمیر کروائے گئے، نہریں بنوائی گئیں۔ ان تمام اصلاحات کے لیے ایک خاص محکمہ قائم کیا گیا۔ موسم گرما کے دوران بغداد میں شدید گرمی پڑتی تھی، چنانچہ ہارون الرشید نے موسم گرما کا صدر مقام" مدینہ النجار" کے نام سے بنوایا لیکن یہ بغداد سے دور تھا چنانچہ رقہ کے مقابل اپنے والد کے بنوائے ہوئے شہر "رافقہ" پر توجہ دی۔ وہاں ایک بڑا قصر تعمیر کروایا جس کا نام قصر السلام رکھا گیا۔ ہارون کے ایما پر یہاں دیگر صاحب ثروت لوگوں نے بھی عالیشان مکانات تعمیر کیے۔"ہارون الرشید" اپنی رعایا کے حالات سے باخبر رہنے اور ان کے مسائل حل کرنے کے لیے کئی طرح کی مجالس کا اہتمام کرتے تھے۔

پانچ سو سالہ مسلم شان و شوکت کا امین شہر"بغداد"

"ہارون الرشید" کا عہد خلافت خوشحالی کا عہد زریں تھا۔ ان کے دور میں خراج کی آمدنی سب سے اہم تھی۔ ذمیوں (غیر مسلموں) پر جزیہ (ٹیکس) فی کس 14 تا 18 در ہم سالانہ تھا۔ تاہم ذمیوں میں معذ ور افراد، بچوں اور عورتوں پر جزیہ معاف تھا۔ زکوۃ، عشر سے بھی خطیر رقم حاصل ہوتی تھی۔ زراعت کو بھر پور انداز میں ترقی دی گئی تھی۔ محاصل سے چار کروڑ میں لاکھ دینار سالانہ کی آمدنی ہوتی تھی۔ لوہا، تانبا  بڑی مقدار میں خراسان میں پایا جاتا تھا، چنانچہ یہاں کے باشندے بر تن ساز و سامان، آلات اور اسلحہ بنانے میں ماہر تھے۔ شام اور بصرہ کی طرح فارس کے باشندے بھی شیشہ سازی کی صنعت میں کمال رکھتے تھے۔ انہیں سونے کے زیورات پر نقاشی اور جواہرات سے مرصع کرنے میں مہارت حاصل تھی۔ زیورات میں خوبصورت تصویریں بھی بناتے تھے۔ کاغذ سازی کا فن بھی چین اور مصر سے آنے والوں کی بدولت یہاں پہنچ چکا تھا۔

مصر میں تجارتی اور جنگی جہاز اور کشتیاں بنانے کی صنعت عروج پر تھی۔ طب کے شعبے میں زبردست ترقی ہوئی تھی۔ خراسان اور آرمینیا والوں کو پردے اور فرش سازی میں غیر معمولی مہارت حاصل تھی۔ شام میں اعلیٰ قسم کا ریشم تیار ہوتا تھا۔ کو فہ میں بار یک اون بنتا تھا جس کا نام ہی کو فیہ پڑ گیا تھا۔ ہارون الرشید کی حکومت اور پڑوس کی مشرقی حکومتوں شاہ چین، ہند، ترکستان اور روم وغیرہ کے درمیان تجارتی تعلقات قائم تھے۔ شام فلسطین اور مصر کے تجارتی تعلقات بحری راستے سے جنوبی یورپ سے قائم تھے۔ راستے محفوظ ہونے اور سہولتیں میسر آنے کی وجہ سے تجارت کو زبردست ترقی حاصل ہوئی۔ اس ترقی میں ڈاک کے محکمے نے بھی قابل ذکر کر دار ادا کیا۔ ہارون کے دور میں محکمہ ڈاک کو بہت ترقی دی گئی۔

"عظیم عباسی خلافت کا نقشہ"

ہارون الرشید کا دور اس لحاظ سے دیگر ادوار سے ممتاز ہے کہ اس دور میں بے پناہ علمی اور تحقیقی کام ہوا۔ ہارون نے "بیت الحکمت" کے نام سے بغداد کے قصر خلافت میں تالیف اور ترجمہ کا بے مثال ادارہ قائم کیا۔ اچھی تنخواہوں پر علما اور مترجمین مقرر کیے۔ اس ادارے میں یونانی، فارسی اور دیگر متعدد زبانوں کی اہم اور بیش قیمت کتابوں کے عربی تراجم ہوئے۔ توریت اور انجیل کا عربی زبان میں ترجمہ اسی عہد میں ہوا۔

ہارون الرشید ہی کے دور میں امام مالک بن انس ، امام شافعی،امام ابو یوسف اور امام محمد بن حسن " نے فقہ پر بڑا کام کیا۔ تصوف کے موضوع پر کئی کتب تصنیف کی گئیں، احادیث کو جمع کر کے مرتب کرنے کا کام شروع ہوا۔ اس طرح علم حدیث وجود میں آیا۔ علم تاریخ پر کام شروع ہوا۔ فلسفہ حکمت، حساب، ہندسہ ، طب اور نجوم کو بھی فروغ حاصل ہوا۔ ہارون الرشید کو جب بھی کسی عالم کے بارے میں علم ہو تا تھا وہ کوشش کرتے تھے کہ انہیں بغداد بلایا جائے۔ چنانچہ انہوں نے دور دور سے علما کو دعوت دی اور انہیں بغداد میں قیام کی سہولتیں مہیا کیں۔ ہارون رشید کا ایک بڑا کارنامہ امام ابو یوسف سے "کتاب الخراج" لکھوانا ہے۔ ہارون الرشید نے خلیفہ بننے کے بعد محسوس کیا کہ محصولات کی وصولی میں بے قاعد گیوں کو روکنے کی ضرورت ہے، چنانچہ انہوں نے امام ابو یوسف سے خراج کا قانون مرتب کروایا جو آج بھی" کتاب الخراج" کے نام سے موجود ہے۔ یہ کتاب خراج، صدقات، جزیہ وغیرہ سے متعلق قوانین کے بارے میں ہے ۔

ہارون الرشید کا عہدہ زریں فتوحات کے لحاظ سے بھی نمایاں مقام رکھتا ہے۔ ان کی حکومت مغرب میں اقصیٰ سے سرزمین سندھ تک، مشرق میں ارضِ چین تک، شمال میں آرمینیا اور جنوب میں سواحل یمن تک پھیلی ہوئی تھی۔ انہوں نے روم پر پانچ حملے کیے۔ اپنے والد کے عہد خلافت میں وہ روم پر دوبارہ حملے کر چکے تھے۔ پھر مسند خلافت پر بیٹھنے کے بعد انہوں نے روم پر تین بار فوج کشی کی، ۱۸۱ھ /۷۹۷ء میں انہوں نے صفصاف کا قلعہ فتح کیا۔ اس سال ان کے ایک سالار عبد الملک بن صالح ایشیائے کو چک میں انقرہ تک بڑھتے چلے گئے اور مطمورہ کو فتح کر لیا۔ ۱۸۷ھ / ۸۰۳ء میں قاسم بن رشید نے قرہ اور عباس جعفر نے حسن سنان کا محاصرہ کیا۔ دونوں شہروں کے باشندوں نے ہتھیار ڈال دیے۔قونیہ تک مسلمانوں کی حکومت کے باعث خشکی کے راستے شام پر رومیوں کا حملہ ممکن نہ تھا چنانچہ وہ بحیرہ روم کے راستے شام کے ساحل پر حملہ کرتے تھے۔ ہارون رشیدنے ان حملوں کو روکنے کے لیے شام کے ساحل پر کئی فوجی چھاؤنیاں قائم کیں اور قلعے بنوائے۔ شام اور مصر کے ساحلوں پر جنگی بیڑے تیار رکھے جاتے تھے، کشتیاں، جہاز اور جنگی سامان تیار کرنے کے کارخانے بھی تھے۔

"عظیم عباسی خلافت کی فوج ایک مصور کی نظر  میں"

سال ۵۱۸۹ / ۸۰۵ء میں ملکہ کے خلاف فوج کے سپہ سالار نغفور کی قیادت میں بغاوت ہوئی۔ نفقور بادشاہ بن بیٹھا تو اس نے ہارون رشید کو خراج دینے سے انکار کر دیا۔ یہی نہیں بلکہ پچھلا جتنا خراج ادا کیا گیا تھا وہ بھی واپس مانگا۔ ہارون الرشید کو جب یہ  پیغام ملا توآپ شدید بر ہم ہوئے۔ اب اس بات کی شدید ضرورت تھی کہ بد عہدی کر کے پھر جانے والوں کو طاقت کے زور سے مزہ چکھایا جائے۔ انہوں نے جنگ کی تیاریوں کا حکم دے دیا۔ تیاریاں جاری تھیں کہ خبر ملی کہ رومی فوج سرحد پار کر کے اسلامی حدود میں آگئی ہے اور مسلمانوں پر حملے کر رہی ہے۔ ہارون الرشید نے فوری طور پر ایک لاکھ تیس ہزار کی فوج اکٹھی کر کے پیش قدمی شروع کر دی۔ مسلمان لشکررومی فوج کو دھکیلتے ہوئے روم کی سرحد کے اندر بڑھتا چلا گیا۔ ہر قلعہ فتح کیا اور اپنے دستوں کو مختلف سمتوں میں روانہ کیا گیا، جنہوں نے زبر دست فتوحات حاصل کیں۔ پے در پے یلغار سے گھبرا کر تلقور نے امان طلب کی اور جزیہ دینے کا وعدہ کیا۔ ہارون رقہ لوٹ گئے ابھی رقہ پہنچ بھی نہ پائے تھے کہ اطلاع ملی، نفقور نے مسلمانوں کی آبادیوں پر پھر حملے کروا دیے ہیں۔ یہ شدید سردی کا موسم تھا۔ برف باری ہو رہی تھی۔ نفقور کا خیال تھا کہ اتنے خراب موسم میں مسلمان لوٹنے کی ہمت نہیں کریں گے۔ ہارون الرشید نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر فوج کو واپس روم کی سمت بڑھنے کا حکم دے دیا۔ نفقور کی فوج سے خونریز جنگ ہوئی۔ آخر نفقور مجبور ہو گیا اور اس نے مملکت روم کے ایک ایک باشندے کا جزیہ ادا کر دیا اور تاوان کے طور پر تین لاکھ دینار ادا کرنے کا وعدہ کیا۔

مسلسل جنگوں میں مصروف رہنے اور خراب موسم میں دشوار گزار سفر کرنے کی بدولت ہارون کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ جمادی الآخر ۱۹۳ھ / مارچ ۸۰۹ء میں انہوں نے ایک مہم میں خراسان کا سفر کیا۔ جرجان پہنچے تو طبیعت زیادہ خراب ہو گئی۔ ارادہ کیا کہ بغداد لوٹ آئیں لیکن واپسی میں طوس پہنچ کر علالت نے شدت اختیار کرلی اور اس شہر میں یہ عظیم شخصیت اپنی حیات مستعار کے آخری لمحات گزار کر ۳ جمادی الآخر ۱۹۳ھ / ۲۰ مارچ ۸۰۹ ء کو آخرت کے سفر پر روانہ ہو گئی۔ انہیں طوس ہی میں سپر د خاک کیا گیا۔

"ایران کے شہر"مشہد"میں موجود عباسی خلیفہ ہارون الرشید کا مقبرہ"

ہارون کی شخصیت علم و دانش، تقویٰ، خدا ترسی، حکمت و تدیر، خطابت، حب رسوال اور حمیت اسلامی جیسے اوصاف کی منہ بولتی تصویر ہے۔ انہوں نے نہ صرف مملکت اسلامیہ میں علم کو بھر پور انداز میں فروغ دیا، بلکہ اس علم سے خود بھی بے اندازہ استفادہ کیا۔ خلیفہ بننے کے بعد بھی تحصیل علم کا سلسلہ جاری رکھا۔ امام ابو یوسف اور امام محمد سے علم حاصل کیا۔ وہ جب کبھی کسی واعظ یا متقی بزرگ کی تعریف سنتے تو خود ان کے پاس جاتے اور ان سے نصیحتیں سنتے۔ وہ بھیس بدل کر بغداد کی مساجد میں نامور اساتذہ کے حلقہ ہائے درس میں ایک عام طالب علم کی طرح شرکت کرتے تھے۔ انہوں نے لغت، حدیث اور نحو کے مانے ہوئے اساتذہ بھی دارالحکومت میں جمع کر لیے تھے۔

 

 ہارون نے طلب علم کے لیے سفر کیے۔ امام مالک سے موطا سننے کے لیے وہ مدینہ منورہ گئے۔ ان کی یادداشت بہت اچھی تھی، وہ اپنے خطبے میں قرآن پاک کی آیات اور احادیث نبوئی ان کی اسناد کے ساتھ بیان کرتے تھے۔ وعظ و نصیحت سن کر ہارون بے اختیار رونے لگتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے انہیں بے حد عقیدت تھی۔ جب کبھی آپ کا نام لیا جاتا ہے اختیار کہہ اٹھتے ، صلی اللہ علی سیدی رسول اللہ ۔

" ایک بار ایک محدث ابو معاویہ نے ہارون کے سامنے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی یم نے فرمایا،

”میری آرزو ہے، اللہ کی راہ میں مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں، پھر مارا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤں۔“

یہ حدیث سن کر روتے روتے ہارون کی ہچکی بندھ گئی۔

اپنے عہد خلافت میں ہارون الرشید نے نوجج کیے۔ ایک سال حج اور دوسرے سال جہاد کیا کرتے تھے۔ سو علما اور فقہا کو بھی اپنے ساتھ سفر حج پر اپنے خرچ پر لے جاتے تھے۔ جس سال حج نہ کرتے اس سال تین سو افراد کو حج پر روانہ کرتے تھے۔ آخری حج کے لیے ہارون نے رقہ سے مدینہ تک پیدل سفر کیا۔ اس سفر میں ان کی اہلیہ زبیدہ بھی ساتھ تھیں۔ اس حج کے موقع پر زبیدہ نے مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ تک ایک نہر کھدوائی جس پر خطیر ر قم صرف ہوئی۔ یہ نہر آج بھی نہر زبیدہ کے نام سے مشہور ہے۔

عراق میں موجود "نہر زبیدہ" جو آج بھی سہی سلامت ہے۔

ہارون نے اپنے معاملات انجام دینے کے لیے ہفتے کی ہر رات ایک مختلف کام کے لیے مخصوص کر رکھی تھی۔ ان میں وزرا، کاتبوں، سپہ سالاران، علما و فقہا، قاریوں اور عابدوں کے لیے راتیں مخصوص تھیں۔ ایک رات وہ بالکل تنہا گزارتے تھے۔ گمان غالب ہے کہ یہ رات وہ عبادت میں صرف کرتے ہوں گے۔ ہارون روزانہ فرض نمازوں کے علاوہ نفل بھی ادا کیا کرتے تھے اور اپنی ذاتی رقم سے صدقہ بھی دیا کرتے تھے۔ ہارون کو اپنی رعایا کی بڑی فکر رہتی تھی۔ رعایا کے حالات و مسائل سے باخبر رنے کے لیے انہوں نے پوری مملکت میں ڈاک کا بہت اچھا نظام قائم کیا تھا۔ خلیفہ کے نمائندے انہیں ہر علاقے کے عوام کی مشکلات سے آگاہ کرتے رہتے تھے۔ ہارون خود بھی راتوں کو بھیس بدل کر مختلف علاقوں کے دورے کرتے تھے تاکہ عوام کے مسائل جان سکیں۔ اس کے بعد وہ مستحق افراد کے وظیفے خاموشی کے ساتھ جاری کروا دیتے۔

 ہارون لباس اور طعام کے معاملے میں بے حد خوش ذوق تھے۔ تاہم وہ روم کے قیصر اور ایران کے کسریٰ کی طرح قیمتی جواہرات سے مزین تاج نہیں پہنتے تھے بلکہ قمیص، سیاہ جبہ اور عمامہ استعمال کرتے تھے۔ ہارون الرشید کے دور حکومت کا ذکر خاندانِ برامکہ کے بغیر ادھورا ہے۔ برامکہ کا خاندان بلخ میں آباد تھا۔ یہ ایک مجوسی گھرانہ تھا۔ اس خاندان کے جد اعلیٰ برمک کے بیٹے خالد نے اموی عہد کے آخری ایام میں اسلام قبول کر لیا تھا۔ خالد بہت قابل منتظم تھے۔ ابو جعفر منصور خلیفہ بنے تو انہوں نے خالد کو طبرستان، رے کا حاکم بنادیا۔ منصور کے صاحب زادے محمد بن منصور (مہدی) "رے" میں مقیم تھے۔

"برامکہ خاندان جسکو عروج اور زوال دونوں عباسی خلافت سے ملا"

ہارون الرشید کا ۲۳ سالہ دورِ خلافت اسلامی تاریخ کا ایک ایسا روشن  باب ہے جس کی چمک صدیاں گزر جانے کے باوجود آج بھی اسی طرح باقی ہے ۔ اسلامی حکومت کو استحکام بخشنے اور مملکت اسلامیہ کو خوشحالی اور مسرت و شادمانی کا مرقع بنانے کے لیے ہارون الرشید نے جس خدا خوفی اور احساس ذمہ داری سے کام کیا، اس کا اعتراف اس عہد کے معروف زاہد بزرگ حضرت فضیل بن عیاض ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ:۔

"مجھے ہارون کی موت سے زیادہ صدمہ کسی امر کا نہیں ہوا مجھے یہ گوارا تھا

                کہ اللہ میری عمر کا حصہ ہارون کی عمر میں زیادہ کر دیتا۔"

 

تازہ ترین پوسٹ

حالیہ پوسٹس

خلافت ِبنو عباس کے دوسرے خلیفہ ابو جعفر منصور جن کا دور عدل کی وجہ سے مشہور تھا

خلافت ِ عباسیہ تاریخ اسلام کی  عظیم ترین خلافت تھی۔عباسی دور حکومت جو کہ پانچ سو سال کے عرصے تک محیط ہے،اسلامی تاریخ کا سب سے زیادہ  روشن،شاندار عہد ہے۔ اس پورے دور میں صرف اندرونی طور پر تبدیلیاں  پیدا…

مزید پڑھیں
جنگِ زاب جس کے بعد بنو اُمیہ کا خاتمہ ہوا اور عباسی خلافت کی شروعات ہوئی۔

یہ25 جنوری کی صبح خلافت اُمیہ کے خلیفہ" مرو ان ثانی" اور تحِریک عباسیہ کے سپہ سالار"بو مسلم"اور عبداللہ بن علی کی افوج کے درمیان "دریاۓ زاب" کے کنارے لڑی  جانے والی ایک تار یخی جنگ تھی۔ خلافت اُمیہ، خلافتِ…

مزید پڑھیں
عباسیوں اور امویوں کے درمیان دریائے "زاب"کے کنارے لڑی جانے والی تاریخی جنگ۔

حضرت امام حسن  کی شہادت کے بعد  راشدین خلافت کا  30 سالہ سنہری دور  اپنے اختتام کو  پہنچ گیا،اور اُس کے بعد  ملوکیت کا ایسا  سیاہ دور شروع ہوا،جو آج تک جاری ہے۔حضرت امام حسن کی شہادت  کے بعد  خلافت…

مزید پڑھیں

تبصرہ کریں