"واقعہ نوارینو"جس میں اہلِ یورپ نے بد عہدی کرتے ہوئے ہزاروں عثمانی سپاہیوں کو شہید کر دیا تھا۔
واقعہ نوا رینو سلطنت عثمانیہ کے ساتھ غداری کا ایک بہت بڑا واقعہ تھا۔ہوا کچھ یوں تھا کہ 18ھویں صدی کے آغاز میں جب عثمانی فوج ینی چری کی سر کشی حد سے بڑھ گئی اور ہر بار کی بغاوت سے عثمانی خاندان بھی تنگ آ گیا تو"سلطان محمود ثانی" نے ینی چری دستے کو معزول کر دیا لیکن جب اس فوج نے بغاوت کر دی تو سلطان محمود پہلے ہی سے تیار تھے انہوں نے چن چن کر ینی چری سپاہیوں کو قتل کر دیا ،یہاں تک کہ اس فوج کا نام عثمانی دفتروں سے بھی مٹا دیا گیا،اور یوں اس سر کش فوج کا خاتمہ ہو گیا جو سلطنت کے زوال کی اصل وجہ تھی۔ینی چری فوج کو ختم ہوئے ابھی 2 ماہ ہی ہوئے تھے کہ روس جو گویا اسی موقعہ کی تلاش میں تھا روس نے جنگی تیاریاں شروع کر دیں اور انہوں نے عثمانیوں سے ایسے مطالبے کر ڈالے جو کہ سلطنت عثمانیہ کے لیے انتہائی نا قابلِ قبول تھے ،لیکن سلطنت عثمانیہ ان سے جنگ نہیں چاہتی تھی ،لیکن سلطان محمود جانتے تھے کہ نئی فوج جو کہ یورپی طرز پر بنائی گئی تھی۔روسی فوج سے مقابلہ نہیں کر سکتی اس لیے سلطان کو مجبور ہو کر 17اکتوبر 1826ءکو معاہدہ آق کرمان پر دستخط کرنے پڑے۔
سلطان محمود نے ان تمام شرائط کو جو کہ سلطنتِ عثمانیہ کے بلکل خلاف تھیں اس لیے منظور کر لیں کیونکہ انہیں مہلت مل جائے اور فوجی اصلاحات مکمل ہو سکیں اورا س کے لیے امن بہت ضروری تھا۔لیکن یورپ کی عیسائی حکومتیں اس شاندار موقعے کو ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتی تھیں۔جب کہ ایک طرف تو ینی چری فوج کا خاتمہ ہو گیا تھا،اور بقیہ فوج یونان کی بغاوت کو ختم کرنے میں مصروف تھی۔چناچہ سلطنتِ عثمانیہ پر دباؤ ڈالنے کے لیے برطانیہ،فرانس اور روس کے مابین6جولائی1827ءکو لندن میں ایک معاہدہ ہوا۔جس کا مقصد یونان اور ترکوں کے درمیان صلح کرانی تھی۔اتحادیوں نے عثمانیوں کے سامنے صلح کی شرائط رکھیں۔کہ اول تو یونان کو بلکل آزاد کر دیا جائے،سلطان کی یہاں حکومت صرف نام کی ہی رہے گی اور سلطنتِ عثمانیہ کو ایک رقم بطور خراج کے سالانہ ملتی رہے گی۔تینوں عیسائی ریاستوں نے جلد مطالبہ کیا کہ یونان سے جنگ روک دی جائے۔لیکن سلطان محمود نے عیسائیوں کے ان مطالبات کو نہ صرف مسترد کیا بلکہ سلطان نے کہا کہ عیسائی ریاستوں کو سلطنتِ عثمانیہ کے اندرونی معاملات میں دخل کی اجازت بلکل نہیں دی جائے گی۔
اتحادی عیسائیوں کو سلطان کے اس طرح جواب سے بہت حیرت ہوئی۔انہوں نے جب دیکھا کہ عثمانی جنرل"ابراہیم پاشا" کو موریا کی مُہم میں شاندار فتح حاصل ہوئی ہے،اور یہ کہ عثمانی فوجوں نے اہلِ یونان کو ہر موقع پر شکست سے دوچار کیا ہے۔تو عیسائیوں نے یونان کی مدد کے لیے اپنے بحری بیڑے روانہ کر دیے۔عیسائی امیر البحروں نے ابراہیم پاشا سے مطالبہ کیا کہ وہ اب باغیوں کے خلاف کوئی کاروائی نہیں کرے گا اور یہ بھی کہ ابراہیم پاشااپنے جہازوں اور فوجوں کو لے کر مصر چلا جائے۔لیکن ابراہیم پاشا نے عیسائی امیروں کے ان مطالبات کو مسترد کر دیا اور کہا کہ جب تک ان کے والد یاسلطان کی طرف سے کوئی حکم نہیں آتا وہ مصر نہیں جائے گا،البتہ ابراہیم پاشا نے یہ ضرور کیا کہ سلطان کی طرف سے احکامات آنے تک انہوں نے عارضی صلح منظور کر لی۔لیکن عیسائی اور وہ بھی عہد وفا،یہاں عیسائیوں نے اس صلح کا کوئی پاس نہ رکھا اور وہ برابر یو نانیوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہے۔عیسائی بہری بیڑے نے صرف یہاں تک اکتفا نہیں کیا،بلکہ انہوں نے یونانیوں کے ساتھ مل کر ان جگہوں پر بھی حملے شروع کر دیے جنہیں ابراہیم پاشا فتح کر چکے تھے۔ابراہیم پاشا نے اس پر سخت احتجاج کیا لیکن عیسائیوں کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔جب ابراہیم پاشا نے شہر"پیتراس"کو بچانے کے لیےجہاں یونانیوں نے حملہ کر دیا تھا،نوارینو کی بندر گاہ سے نکلنے لگے تو انگریز امیر البحر"کوڈ رنگٹن"نے ابراہیم کو معاہدہ صلح کا حوالہ دے کر جانے سے روک دیا۔
اتحادی بیڑے نے عثمانی بیڑے کی ناکہ بندی کے لیے خلیج میں داخل ہو گیا۔عیسائی امیر البحر کوڈرنگٹن کو یہ حکم دیا گیا کہ عثمانی بیڑے کو کسی قسم کی مدد نہ پہنچنے پائے ،چاہے اس کے لیے تمہیں توپ سے بھی کام لینا پڑے تو کر گزرنا۔اُدھر جب ابراہیم پاشا نے دیکھا کہ اتحادیوں کی حوصلہ افزائی سے باغیوں کی بغاوت بڑھ رہی ہے۔تو وہ موریا کے اندرونی علاقوں میں جا کر ان بغاوتوں کو کچلنے کے لیے راونہ ہوئے۔عیسائی امیر کوڈرنگٹن نے ابراہیم پاشاکی عدم موجودگی کا فائیدہ اُٹھاتے ہوئے،20 اکتوبر 1827ء کو اچانک مصری جہازوں پر جوکہ خلیج نوارینو میں لنگر انداز تھے ان پر حملہ کر دیا۔اس حملے کہ وجہ یہ بیان کی گئی کہ عثمانی بیڑے سے ایک گولی آکر ایک انگریز کو لگی جس سے اسکی موت ہو گئی۔یوں اس ایک عیسائی کی جان کے بدلے انگریزوں نے پورے عثمانی بیڑے کو تباہ کر دیا جس سے ہزاروں مسلمان شہید ہوئے۔عثمانی بحریہ میں کشتیوں کی تعداد تو زیادہ تھی لیکن جنگی جہازوں کی تعداد کم تھی اور اتحادی بیڑے کی تعداد زیادہ تھی۔ترکوں اور مصریوں نے ڈٹ کر مقابلہ کیا اور 4گھنٹوں تک یہ جنگ جاری رہی ،لیکن آخر میں سوائے چند ایک عثمانی کشتیوں کے باقی تمام جہاز تباہ ہو گئے۔
ایک انگریزمؤرخ"میریٹ" کے مطابق"۔برطانیہ کی حکومت میں اس واقعہ سے بے چینی پھیل گئی،کیونکہ اس وقت تک برطانیہ،اور فرانس نے سلطنتِ عثمانیہ سے جنگ کا اعلان نہیں کیا تھا۔سو اس لیے اس واقعے کو ختم کرنے کے لیے 29 جنوری 1828ء کو شاہِ برطانیہ نے اس واقعہ پر شدید غم کا اظہار کیا،اور یقین دہانی کرائی کہ پھر کبھی ایسی نوبت نہیں آئے گی۔لیکن ایک اور مؤرخ "موسیوالفریدلمیر" سچ لکھتے ہوئے کہتا ہے کہ واقعہ نوا رینو میں اتحادی بیڑے نے عثمانی بیڑے پر جو حملہ کیا تھا وہ فرانس ،روس اور برطانیہ کی مرضی سے ہوا تھا۔
تبصرہ کریں