ہندستان میں لودھی سلطنت کی بنیاد رکھنے والے پہلے لودھی سلطان
لودھی سلطنت کے بانی اور پہلے حکمران "بہلول لودھی"۔لودھی دراصل افغانستان کے ایک قبیلے غلزئی کی شاخ کا نام ہے۔سلطان محمود غزنوی کی حکومت سے پہلے یہ قبیلہ ملتان آکر آباد ہو گیا تھا۔یہاں ابو الفتح داؤد کی حکومت تھی۔جو شیخ حمید لودھی کے پوتے تھے،جنہوں نے یہاں سب سے پہلے سکونت اختیار کی تھی۔تاہم اس قبیلے کو اہمیت اُس وقت حاصل ہوئی جب سلطان فیروز شاہ تغلق کے عہدِ حکومت میں لودھی قبیلے کے چند افراد تجارت کی غرض سے ہندستان آئے۔
تجارت کرنے والے والوں میں سے ایک ملک بہرام بھی تھے۔انہوں نے ملتان آکر حاکمِ ملتان کے پاس ملازمت اختیار کر لی۔یہ فیروز شاہ تغلق کا زمانہ تھا۔ملک بہرام کے پانچ بیٹے تھے۔ملک شاہ،ملک کالا،ملک فیروز،ملک محمد اور ملک خواجہ۔ملک بہرام کی وفات کے بعد بھی انکے بیٹے ملتان میں ہی مقیم رہے۔اس دوران خضر خان ملتان کے حاکم بن گئے،ملک سلطان شاہ نے خضر خان کے پاس ملازمت اختیار کر لی۔انہیں اسلام خان کا خطاب دیا گیا۔ یوں مختلف عہدوں میں وہ ترقی پاتے ہوئے سر ہند کے حکمران بن گئے۔
فیروز شاہ تغلق کے انتقال کے بعد ملک میں افرا تفری پھیل گئی،6سال کے عرصے میں 3تغلق حکمران تبدیل ہوئے۔اسی دوران 800ھ/بمطابق 1398ءمیں امیر تیمور نے دہلی پر حملہ کر دیا۔امیر تیمور 22 جمادی الاول801ھ /بمطابق1399ءمیں واپس چلا گیا۔اور دہلی میں خضر خان کو اپنا نائب مقرر کر گیا۔تغلق خاندان کے چھوتھے اورآخری حکمران محمود تغلق تھے،جو کچھ عرصے تک تو خضر خان سے لڑتے رہے،لیکن 815ھ/بمطابق1412ءمیں محمود تغلق کا انتقال ہو گیا۔
جس کے بعد 817ھ/بمطابق 1414ءمیں خضر خان نے دہلی پر چڑھائی کر کے اسے فتح کر لیا۔اب چونکہ خضر خان سید تھے،اس لیے انکی قائم کردہ سلطنت سید خاندان کہلاتی ہے۔یہ حکومت 817ھ سے 855ھ/بمطابق1414ء سے 1451ء تک قائم رہی۔اس دوران اس میں چار حکمران ہوئے۔خضر خان کی حکومت چونکہ دہلی اور اس کے نواحی علاقوں پر قائم رہی ،لیکن ان کا دور بڑا ہنگامہ خیز رہا۔خضر خان کی حکومت سات سال تک قائم رہی۔824ھ/بمطابق 1424ءمیں خضر خان کا انتقال ہو گیا،ان کے بعد ان کے بیٹے مبارک شاہ حکمران بنے،انہیں بھی کھوکھروں (گکھڑوں)کی جانب سے بغاوت کا سامنا رہا۔829ھ/1424ءمیں انہوں نے ابراہیم شرقی ،شاہ جونپور کو شکست دی۔تاہم سازشوں کا سلسلہ جاری رہا ۔یہاں تک کہ 1437ھ/بمطابق1434ءمیں انہیں قتل کر دیا گیا۔ان کی وفات کے بعد ان کے بیٹے محمد شاہ کو حکمران بنایا گیا ،لیکن انکی حکومت ایک کمزور حکومت تھی۔
ایک بار بلو خان چند گھوڑے لے کر محمد شاہ کے پاس جا پہنچے۔محمد شاہ نے تمام گھوڑے پسند کیے اور انہیں خرید لیا۔معاوضے کی ادائیگی اس طرح ہوئی کہ محمد شاہ نے ایک پرگنہ(ضلع)کے پورے سال بھر کا محصول بلو خان کے نام لکھ دیا۔یہ پر گنہ سرکشوں اور باغیوں کا مرکز تھا۔ بلو خان کے ساتھیوں نے یہاں سے محصول لینے کی کوشش کی لیکن وہ ناکام لوٹے۔اس پر بلو خان نے محمد شاہ سے اجازت طلب کی کہ وصولی کے دوران اگر کسی نے بغاوت کی تو وہ اسے کچل ڈالے گا ،محمد شاہ نے اس کی اجازت دے دی اور کہا کہ اس دوران جتنا مال ان باغیوں سے تمہارے ہاتھ لگے گا وہ بھی تمہیں بخش دوں گا۔بلو خان نے جا کر سخت کاروائی کی اور تمام سر کشوں کو اپنا مطیع بنا لیا۔
محمد شاہ انکی اس کامیابی پہ بہت خوش ہوئے ،اور انہیں مذید پر گنےعطا کیے اور انہیں اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔انہیں ملک بہلول کا خطاب دیا گیا۔بہلول سپاہی بن کر مزید سپاہیوں کی تربیت کرنے لگے۔وہ ہر سال سپاہیوں کی ایک کھیپ تیار کر کے محمد شاہ کے حوالے کر دیتے اور بدلے میں محمد شاہ انہیں مزید پرگنے،بہلول کے حوالے کر دیتے۔
اس دور میں بھی بہلول کے چچاسلطان شاہ(اسلام شاہ)سرہند کے حاکم (گورنر)تھے۔وہ اپنے اس بھتیجے بہلول سے بے حد متاثر تھے۔وہ اپنے سگے بیٹوں سے بڑھ کر ان سے محبت کرتے تھے یہاں تک کہ انہوں نے ایک تو انکا نکاح اپنی بیٹی سے کر دیا اور دوسرا انہیں اپنا جانشین منتخب کر لیا۔کچھ عرصے کے بعد ان کے چچا کاا نتقال ہو گیا ،جس کے بعد بہلول سر ہند کے حکمران بن گئے۔حکمران بننے کے بعد محمد شاہ نے ایک فوج بہلول کے خلاف روانہ کی لیکن بہلول نے انہیں شکست دی۔اس کے بعد محمد شاہ نےسر ہند اور اس کے اطراف کے علاقوں پر بہلول کی حکومت کو تسلیم کرتے ہوئے انہیں فتح خان کا خطاب دیا۔
محمد شاہ کی حکومت کمزور حکومت تھی،اس لیے آس پاس کے باغی دہلی پر حملے کرتے رہتے تھے۔جونپور کے حکمران ابراہیم شاہ نے تو بہت سے علاقے اپنی سلطنت میں شامل کر لیے تھے۔بعض میواتی امیروں نے مالوہ کے حکمران محمود خلجی کو دہلی پر حملے کی دعوت دی۔محمود خلجی نے 846ھ/بمطابق1442ءمیں دہلی پر چڑھائی کر دی۔محمد شاہ نے بہلول سے مدد مانگی۔بہلول 20ہزار سپاہیوں کو لے کر مدد کے لیے نکل پڑے۔صبح سے شام تک جنگ ہوتی رہی ،پھر محمود کو واپس جانا پڑا ،کیونکہ احمد شاہ گجراتی نے مالوہ پر چڑھائی کر دی تھی۔بہلول نے مالوہ تک انکا تعاقب کیا۔محمد شاہ سید بہلول کی اس کامیابی سے بہت خوش ہوئے اور انہیں اپنا بیٹا بنا لیا اور انہیں خانِ خاناں کا خطاب دیا۔اس کے بعد بہلول لودھی کی حکمرانی لاہور،دیپالپور اور ملتان پر بھی قائم ہو گئی۔بہلول نے ہانسی،فیروز آباد اور ناگور پر قبضہ کر لیا۔
محمد شاہ سید کا انتقال849ھ /بمطابق 1445ءمیں ہوئی۔اس کے بعد انکے بیٹے علاؤالدین عالم شاہ تخت نشین ہوئے،وہ بھی کمزور حکمران تھے۔ان کے عہد میں دہلی سلطنت انتشار اور عدم و استحکام کی انتہا کو پہنچ گئی۔یوں سید خاندان کے اس آخری حکمران کی حکومت سمٹ کر صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی تھی۔علاؤالدین طُرفہ چلے گئے کیونکہ انہیں یہ علاقہ بہت پسند تھا۔ان حالات میں بہلول نے دہلی پیش قدمی کی اور اس سلطنت پر قبضہ کر لیا جو بظاہر اپنی آخری سانسیں لے رہی تھی۔
سنہ755ھ/بمطابق1451ءمیں بہلول لودھی دہلی سلطنت کے فرمانروا بن چکے تھے۔اس طرح برصغیر میں لودھی سلطنت کی حکمرانی کا آغاز ہوا۔لودھی خاندان 855ھ سے 932ھ/بمطابق1451ء سے 1526ء تک برصغیر پر حکمران رہا۔اس کے بعد ظہیر الدین بابر نے مغلیہ سلطنت کی بنیاد رکھی۔
بہلول لودھی نے حکومت سنبھالتے ہی سب سے پہلے پنجاب کی جانب توجہ دی۔انہوں نے دہلی میں اپنے بیٹے بایزید کو قائم مقام مقرر کیا اور خود 856ھ/بمطابق 1452ءمیں دیپال پور کی طرف روانہ ہوئے۔خلجیوں کے عہد میں یہ علاقہ پنجاب کا دار الحکومت تھا۔چونکہ یہ لاہور اور ملتان کے وسط میں تھا۔اس لیے بیرونی حملوں کی روک تھام کے لیے اسکی بڑی اہمیت تھی۔امیرِ تیمور کے حملے کے وقت یہ ملتان کا مساوی شہر تھا۔جو عناصر بہلول لودھی کی حکومت کے مخالف تھے ،انہوں نے سید خاندان کے آخری حکمران علاؤ الدین عالم شاہ کو ترغیب دی کہ وہ بہلول لودھی کے خلاف بغاوت کریں لیکن عالم شاہ نے انکار کر دیا۔اس پر ان عناصر نے جونپور کے حکمران محمود شرقی کو حملے پر آمادہ کیا۔جس پر محمود شرقی نے 2لاکھ فوج اور 1500جنگی ہاتھیوں کے ساتھ دہلی پر حملہ کر دیا۔جب بہلول لودھی کو اس حملے کی خبر ملی تو وہ راستے ہی سے واپس چلے گئے۔فریقین کے درمیان جنگ ہوئی جس میں بہلول لودھی کو فتح حاصل ہوئی اور محمود شرقی وپس چلے گئے۔لیکن اس کے بعد 26سال تک بہلول لودھی اور محمود شرقی کے درمیان جنگ کے شعلے بھڑکتے رہے۔محمود شرقی کی جانب سے اطمینان ہونے کے بعد بہلول لودھی میوات کی جانب بڑھے۔وہاں کے حکمران احمد خان میواتی نے اطاعت قبول کر لی۔پھر بہلول لودھی نے سنبھل ،کول،برہان آباد،اور ڑاپڑی فتح کیا۔کچھ عرصے کے بعد محمود شرقی سے بہلول لودھی کی اٹاوہ کے مقا م پر جنگ ہوئی۔جنگ کے بعد صلح ہو گئی۔اس جنگ کے بعد محمود شرقی کا انتقال ہو گیا۔ان کے بعد انکے بیٹے محمد شاہ تخت نشین ہوئے۔انہوں نے بھی بہلول لودھی سے جنگ کی جس کے بعد فریقین میں چار سال کے لیے صلح ہو گئی۔صلح کی مدت ختم ہونے کے بعد حسین شرقی سے پھر جنگ ہوئی،جو سات دنوں تک جاری رہی،اور آخر تین برس کے لیے صلح ہو گئی۔اس معیاد کے اختتام پر حسین شرقی نے ایک لاکھ سپاہیوں اور ایک ہزار ہاتھیوں کے ساتھ دہلی پر چڑھائی کر دی۔بہلول لودھی نے ڈٹ کر مقابلہ کیااور آخر صلح ہو گئی۔لیکن 883ھ/بمطابق 1478ءمیں حسین شرقی نے پھر جنگ چھیٹر دی،بہلول لودھی نے کنپل،شمس آباد،سکیت،مارہرہ وغیرہ پر قبضہ کر لیا۔حسین شرقی سے مذید جنگیں ہوئیں جن میں بہلول لودھی کامیاب رہے۔جبکہ حسین گوالیار کے راستے فرار ہوئے۔
بہلول لودھی نے اٹاوہ پر قبضے کے بعد حسین شرقی کے لشکر پر حملہ کر دیا،جو ان دنوں کالپی میں تھے۔دریائے جمنا کے کنارے جنگ کا سلسلہ کئی ماہ تک جاری رہا۔آخر حسین شرقی جونپور کی طرف چلے گئے۔بہلول لودھی نے انکا تعاقب کیا،حسین بہرائچ کے راستے قنوج پہنچے،قنوج کے نزدیک ایک ندی آب رہب کے کنارے جنگ ہوئی۔حسین کو پھر شکست ہوئی۔ان کی بیوی خوترہ(خونزا)جو سلطان علاالدین کی بیٹی تھیں گرفتار ہونے والوں میں شامل تھیں۔بہلول لودھی نے خوترا کے ساتھ بہت عزت کا سلوک کیا،اور انہیں حسین شرقی تک باعزت پہنچایا۔اس کے بعد حسین شرقی سے مذید 7معرکے ہوئے ،حسین آخری بار شکست کھا کر بہار چلے گئے۔بہلول لودھی نے893ھ/بمطابق1488ءکو جونپور کی سلطنت کو اپنی قلمرو میں شامل کر لیا۔
اس کے بعد بہلول لودھی نے رانا اودے پور کو شکست دی اوراجمیر کے تمام علاقوں پر قبضہ کر لیا۔یوں اپنے 38 سالہ دورِ حکومت میں بہلول لودھی نے کڑہ،بہرائچ،لکھنؤ،کالپی،دوآبہ کا تمام حصہ،اٹاوہ،گوالیار،اودے پور،سنبھل،میوات،کول(علی گڑھ)اور برہان آباد کو پھر سے سلطنت میں شامل کر لیا۔
بہلول لودھی نے اپنی اس سلطنت کو اپنے بیٹوں اور رشتے داروں میں تقسیم کر دیا تھا۔بہلول لودھی نے 894ھ/بمطابق1489ءمیںگوالیار کے سرکش راجہ کے خلاف فوج کشی کی۔راجہ نے 80لاکھ تنکے دے کر اطاعت کا یقین دلایا۔بہلول لودھی جب اس فتح کے بعد دہلی کی جنب لوٹ رہے تھے تو راستے میں انکی طبیعت اچانک خراب ہو گئی۔سکیت کے نواحی قصبےبھداؤنی(اسے تلاولی بھی لکھا گیا ہے)میں انکا انتقال ہو گیا۔ان کے بیٹے سکندر لودھی نے انکی میت دہلی بھیج دی جہاں انہیں سپردِ خاک کیا گیا۔بعد میں انکی قبر پر شاندار مقبرہ تعمیر کیا گیا۔ھ
تبصرہ کریں