رمضان المبارک کے مہینے میں شہید ہونے والے10خوش نصیب مسلمان سلطان۔
1)حضرت علیؑ
خارجی جو مولا علیؑ سے جنگ میں زندہ بچ گئے تھے، بالآخروہ اس نتیجہ پر پھونچے که اس قتل و غارت کی وجہ حضرت علی (ع) معاویہ اورعمرو عاص ہیں اور اگر ان تینوں افراد کو قتل کر دیا جائے تو مسلمان اپنے مسائل کوخود حل کر لیں گے۔ اسلئے انھوں نے آپس میں طےکیا کہ ہم میں سے ہر ایک آدمی ان میں سے ایک ایک کو قتل کرے گا ۔
ابن ملجم نے حضرت علی (ع) کے قتل کا عہد کیا اور سن۴۰ ہجری بمطابق انیسویں رمضان المبارک کی شب کو کچھ لوگوں کے ساتھ مسجد کوفہ میں آکر بیٹھ گیا ۔ اس شب حضرت علی (ع) اپنی بیٹی کے گھر مہمان تھے اور صبح کو واقع ہونے والے حادثہ سے با خبر تھے۔ لھذا جب اس مسئلہ کو اپنی بیٹی کے سامنے بیان کیا تو ام کلثوم نے کہا کہ کل صبح آپ ۔۔۔کو مسجد میں بھیج دیجئے ۔
حضرت علی (ع) نے فرمایا : قضائے الٰہی سے فرار نھیں کیا جا سکتا۔ پھر آپنے کمر کے پٹکے کو کس کر باندھا اور اس شعر کو گنگناتےہوئے مسجد کی طرف روانہ ھوگئے ۔
” اپنی کمر کو موت کے لئے کس لو ، اس لئے کہ موت تم سے ملاقات کرے گی ۔
اور جب موت تمھاری تلاش میں آئے تو موت کے ڈر سے نالہ و فریاد نہ کرو “۔
حضرت علی (ع) سجده میں تھے کہ ابن ملجم نے آپ کے فرق مبارک پر تلوار کا وار کیا۔ آپ کے سر سے خون جاری ہواآپ کی داڑھی اور محراب خون سے رنگین ہو گئ۔ اس حالت میں حضرت علی (ع) نے فرمایا : ” فزت و رب الکعبه “ کعبہ کے رب کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔ پھر سوره طہ کی اس آیت کی تلاوت فرمائی :
”ہم نے تم کو خاک سے پیدا کیا ہے اور اسی خاک میں واپس پلٹا دیں گے اور پھر اسی خاک تمھیں دوباره اٹھائیں گے “۔
حضرت علی (ع) اپنی زندگی کے آخری لمحات میں بھی لوگوں کی اصلاح و سعادت کی طرف متوجہ تھے۔ انہوں نے اپنے بیٹوں، عزیزوں اور تمام مسلمانوں سے اس طرح وصیت فرمائی :
” میں تمہیں پرھیز گاری کی وصیت کرتا ہوں اور وصیت کرتا ہوں کہ تم اپنے تمام امور کو منظم کرو اور ہمیشه مسلمانوں کے درمیان اصلاح کی فکر کرتے رہو ۔ یتیموں کو فراموش نہ کرو ۔ پڑوسیوں کے حقوق کی رعایت کرو ۔ قرآن کو اپنا عملی نصاب قرار دو ،نماز کی بہت زیادہ قدر کرو، کیوں کہ یہ تمھارے دین کا ستون ھے “۔
آپ کے رحم وکرم اور مساوات پسندی کا عالم یہ تھا کہ جب آپ کے قاتل کو گرفتار کرکے آپ کے سامنے لا یا گیا، اورآپ نے دیکھا کہ اس کاچہرہ زرد ہے اور انکھوں سے آنسو جاری ہیں، تو آپ کو اس پر بھی رحم آگیا۔ اپنے دونوں بیٹوں امام حسن علیہ السّلام وامام حسین علیہ السّلام کو ہدایت فرمائی کہ یہ ہمارا قیدی ہے اس کے ساتھ کوئی سختی نہ کرنا، جو کچھ خود کھانا وہ اسے کھلانا، اگر میں صحتیاب ہو گیا تو مجھے اختیار ہے کہ چاہے اسے سزا دوں یا معاف کردوں اور اگر میں دنیا میں نہ رہا اور آپ نے اس سے انتقام لینا چاہا تو اسے ایک ہی ضربت لگاناکیونکہ اس نے مجھے ایک ہی ضربت لگائی ہے ۔ اور ہر گز اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ قطع نہ کرنا کیوں کہ یہ اسلامی تعلیم کے خلاف ہے۔
حضرت علی علیہ السّلام دو روز تک بستر بیماری پر کرب و بیچینی کے ساتھ کروٹیں بدلتے رہے۔ اخر کار زہر کا اثر جسم میں پھیل گیا اور ۲۱رمضان کو نمازِ صبح کے وقت آپ کی روح جسم سے پرواز کر گئ .حضرت امام حسن و امام حسین علیہما السّلام نے تجہیزو تکفین کے بعد آپ کے جسم اطہر کو نجف میں دفن کر دیا۔
2)جلال الدین خلجی۔
جلال الدین خلجی برصغیر کے پہلے خلجی فرمانروا تھے۔جن کی بے مثال بہادری،نرم خوئی اور بے حد رحم دلی نے انہیں ایسے مسلمان حکمرانوں کی صف میں شامل کر دیا ہے ،جنکا زکر تاریخ ہمیشہ عزت و احترام کے ساتھ کرتی رہے گی۔
جلال الدین خلجی نے بر سرِ اقتدار آتے ہی بغاوتوں کو ختم کیا،آپ کا سب سے بڑا کارنامہ بر صغیر کو منگولوں کے حملوں سے روکنا تھا ،آپ نے منگولوں کو ہر بار شکست دی۔اس کے علاوہ جلال الدین خلجی نے ہندو راجاؤں کے خلاف بھی جنگیں جاری رکھیں۔
695ھ میں جلال الدین خلجی کے بھتیجے علاؤالدین خلجی، دیو گری کی فتح سے واپس لوٹے جو کہ جلال الدین خلجی کی اجازت کے بغیر تھی۔علاؤالدین دیو گری سے واپس کڑہ 695ھ کے اوائیل میں پہنچےان کی اتنی لمبی غیر حاضری سے جلال الدین خلجی کو تشویش ہوئی۔
17 رمضان المبار 695ھ مطابق 19 جولائی 1296ء کو جلال الدین کی کشتی جیسے ہی دریائے گنگا کے کنارے لگی،جلال الدین کے آدمیوں نے جلال الدین خلجی پر حملہ کر کے انہیں شہید کر ڈالا۔
3) فیروز شاہ تغلق۔
فیروز شاہ تغلق برصغیر پاک و ہند میں تغلق خاندان کے تیسرے فرمانروا تھے۔فیروز شاہ تغلق کا 40سالہ دورِ حکومت فلاح عامہ کے لحاظ سے مثالی ہے۔محمد تغلق کی وفات کے بعد بغاوتیں ہونے لگیں،جس کی وجہ سے اُمرا نے فیروز شاہ تغلق کو ملک کا فرمانروا بنا دیا۔
فیروز شاہ حکمران بننے کے بلکل نھی خواہش مند نہ تھے،آپ حجِ بیت اللہ کے لئے روانہ ہونا چاہتے تھے،لیکن امرا کے مسلسل اصرار پر وہ بے بس ہو گئے اور 1351ء کو فیروز شاہ کو تخت نشین کر دیا گیا۔فیروز شاہ نے اپنے وعرِ حکومت میں سب سے پہلے منگولوں سے جنگ لڑی،کیونکہ 752ھ کو منگول لشکر نے دریائے سندھ کے کنارے فوج کُشی کی تھی۔فیروز شاہ نے فوراً منگولوں کے خلاف فوج جمع کی اور انہیں شکست دی۔
ٍفیروز شاہ ایک نیک اور خدا ترس حکمران تھے،یہی وجہ ہے کہ ان کے زمانے میں کوئی عورت ایسی نہ تھی۔جس کے پاس زیور نہ ہو ۔دہلی کے شیخ الاسلام "بہاالدین"کا کہنا تھا کہ انسان کو فکر ہوتی ہے کہ اس کے مرنے کے بعد اس کی بیوی اور بچوں کا کیا بنے گا۔اس فکر کو فیروز شاہ نے دور کر دیا تھا۔فیروز شاہ نے 18 رمضان المبارک 790ھ بمطابق 20 ستمبر1388ء کو 80 برس کی عمر میں اس دنیا کو خیر باد کہ دیا۔
4)محمود شاہ بیگڑہ۔
محمود شاہ بیگڑہ سلطنتِ گجرات کے لائق اور خدا ترس انسان تھے، جن کا 52 سالہ دورِ حکومت نہ صرف سلطنتِ گجرات کا عہدِ زریں کہلاتا ہے بلکہ بر صغیر کی تاریخ میں بھی اہم حیثیت کا حامل ہے۔سلطنتِ گجرات کا دورِ حکومت تقریباً 170 سالوں پر محیط ہے۔
محمود شاہ نے 1464ء میں گجرات اور مالواہ کے درمیان میں ایک سر کش ہندو راجہ"رائے مندلک" کے خلاف فوج کشی کی اور اسے شکست دی ،بعد میں اس ہندو راجہ نے اسلام قبول کر لیا اور محمود شاہ نے انہیں "خان جہاں"کا خطاب دیا۔
اس کے بعد انہوں نے پرتگیزوں کےخلاف گجرات میں بحری جنگ لڑی،جس میں محمود شاہ کی مدد مصر کے مملوک سلطان "قانصوہ غوری" نے جس کے بعد پرتگیزی بیڑے کا قائد"ڈوم لورنکو"مارا گیا۔محمود شاہ جب 69برس کے ہوئے تو بیمار رہنے لگے، یہی علالت ان کے لئے سفرِ آکرت لے کر آئی۔چناچہ 2 رمضان المبارک 917ھ/بمطابق 23 نومبر 1511ء کو اس قابل اور عظیم حکمران کا انتقال ہو گیا۔
5)محمد بن ابی عامر۔
محمد بن ابی عامر کا نام شائید ہی آپ نے پہلے کبھی سنا ہو،محمد بن ابی عامر وہ عظیم مسلمان حکمران تھے جنہوں نے اُندلس کی سر زمین پر پچین سال تک حکومت کی تھی۔ اس دوران انہوں نے عیسائیوں کےخلاف 50 سے زیادہ جنگیں لڑی تھیں۔اور ہر ایک جنگ میں فتح یاب رہے۔یہ محمد بن ابی عامر ہی تھے جن کی قیادت میں مسلمانوں کے قدم ایسے علاقوں تک پہنچے جہاں اس سے قبل اسلام نہیں پہنچا تھا۔آپ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے تھے کہ ان کے زندگی کے دن جہاد میں پورے ہوں ،انہیں اس دعا کا اتنا زیادہ یقین تھا کہ جب کبھی بھی جہاد کے لئے نکلتے تو اپنے ساتھ کفن بھی لے کر جاتے جو کہ انکی بیٹیوں نے سیا تھا۔محمد بن ابی عامر کی آخری فتح قشتالیہ تھی ،اس فتح کے بعد وہ فاتح کی حیثیت سے قر طبہ واپس لوٹے،اور بیمار پڑ گئے،علالت اس قدر ہو گئی کہ گھوڑے پر سوار نہ ہو سکتے تھے چنانہ انہیں تخت پر سوار کر کے صوبہ سوریہ کے شہر سر قسطہ لے جایا گیا جہاں 27رمضان المبارک392ھ/بمطابق اگست 1002ء کو وہ سفرِ آخرت پر روانہ ہوئے۔
6)عثمان غازی۔
عثمان غازی ارتغل غازی کے بیٹے اور عظیم سلطنتِ عثمانیہ کے بانی تھے۔عثمان غازی رعایا کے ساتھ عدل و انصاف کرتےتھے۔ ان کی زندگی سادہ تھی اور انہوں نے کبھی دولت جمع نہیں کی۔ مال غنیمت کو یتیموں اور غریبوں کاحصہ نکالنے کے بعد سپاہیوں میں تقسیم کردیتےتھے۔ وہ فیاض، رحم دل اور مہمان نواز تھا اور اس کی ان خوبیوں کی وجہ سے ہی ترک آج بھی اس کا نام عزت سے لیتے تھے۔ اس کے بعد یہ رواج ہو گیا کہ جب کوئی بادشاہ تخت پر بیٹھتا تو عثمان غازی کی تلوار اس کی کمر سے باندھی جاتی تھی اور دعا کی جاتی تھی کہ خدا اس میں بھی عثمان ہی جیسی خوبیاں پیدا کرے۔
عثمان غازی نے ایک طرف وحشی منگولوں اور دوسری جانب باز نطینی عیسائیوں کے ساتھ جنگوں میں فتوحات حاصل کیں۔
1317ء کو عثمان غازی نے بورصہ شہر کا محاصرہ کر لیا جو کہ 10 سال تک جاری رہا۔اس دوران عثمان غازی بیمار ہو گئے،اور سوغوت چلے گئے۔اور آخر 1326ءمیں عثمان غازی کے بیٹے اورخان برسہ شہر کی فتح کی خبر لائے۔اس کے چند دنوں بعد 21 رمضان المبارک726ھ/بمطابق21 اگست 1326ءکو عثمان غازی سفر آخرت پر روانہ ہو گئے۔
7)نظام الملک طوسی۔
جس طرح ہارون الرشید کا دور برامکہ خاندان کے تذکرے کے بغیر نامکمل ہے اسی طرح سلجوقیوں کا عہد نظام الملک طوسی کے ذکر کے بغیر ادھورا ہے۔نظام الملک طوسی سلجوقی سلطنت کے عظیم وزیر تھے۔سلجوقی عہد کے تمام کارنامے نظام الملک کے تیس سالہ دورِ وزارت کے مرہون منت ہیں۔نظام الملک طوسی نے ایک طرف تو جنگی مہمات جاری رکھیں جبکہ دوسری طرف انہوں نے سلجوقی سلطنت کو ترقی دینے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔
8) سلطان طغرل۔
سلطان طغرل بیگ کے نام سے کون واقف نہیں ۔سلطان طغرل سلجوقی سلطنت کے پہلے طاقتور ترین عظیم سلطان تھے ۔خلافت عباسیہ کے زوال پذیر ہونے کے بعد عالم اسلام کو ایک مرکز پر جمع کرنے کا کاعظیم کام بھی سلطان طغرل بیگ ہی نے کیا تھا۔سلطان طغرل بیگ نے عباسی خلافت کے زیرِ سایہ ہی اپنی حکومت قائم کی تھی۔
اور تاریخ میں پہلی بار مسلمانوں کے مقدس مقامات مکہ اور مدینہ پاک عربوں کے ہاتھوں نکل کر ترکوں کے زیر آگئے تھے۔آپ ایک نیک اور عادل حکمران تھے،ربیع الاول 455ھ/مبطابق مارچ1063ء کو سلطان طغرل رے کی جانب روانہ ہوئے،رے پہنچ کر وہ اچانک بیمار پڑ گئے،کہتے ہیں اس زمانے میں سخت گرمی پڑ رہی تھی۔سلطان نے رے سے باہر ایک گاؤں طجرشت میں قیام کو ترجیع دی کیوں کہ وہ قدرے ٹھنڈا تھا۔اس گاؤں میں اچانک سلطان کی نکسیر پھوٹنے سے خون بہنے کا ایسا سلسلہ شروع ہوا کہ کسی طرح نہ رک سکا۔اور آخر کار 8رمضان المبارک 455ھ/بمطابق4 ستمبر 1063ء کو اس عظیم سلجوقی فرمانروا نے اس دنیا کو خیر باد کہ دیا،آپکو رے میں سپرد خاک کیا گیا جو آج کل تہران کہلاتا ہے۔
تبصرہ کریں